Tuesday, August 30, 2011

اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا!

ایک "اکیلی" کے نام !!
اُس "اکیلی" کے نام .....
 جو کبھی فلسطین کے ویراں علاقوں میں ملے
کبھی عراق کے تباہ و برباد شہروں میں........
کبھی گجرات کی خون ریز سڑکوں پر........
کبھی افغانستان کے کہساروں میں ........
کبھی کشمیر کی وادیوں میں ........
جس کی چیخیں صدا بصحرا ہیں!
کبھی ابو غریب، گونتانامو اور کبھی شبر غان جیل میں ........
جو کبھی عافیہ کے روپ میں ........
کبھی فاطمہ کے روپ میں ........
کبھی بناتِ حفصہ کے روپ میں ........
کبھی مروا الشربینی کے روپ میں ........
پکارتی ہے، راہ تکتی ہے
اُس کی جو گھر میں پڑا سو رہا ہے
یا
حالِ امّت پہ صرف رو رہا ہے
جسے ابنِ قاسم بننا ہے ........
................................................................................

’’اکیلی‘‘
شاعر : بلراج کومل
اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
جانتی ہوں تمہارے لئے غیر ہوں
پھر بھی ٹھہرو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں

آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
میری امی نہیں
میرے ابا نہیں
میری آپا نہیں
میرے ننھے سے معصوم بھیا نہیں
میری عصمت کی مغرور کرنیں نہیں
وہ گھروندہ نہیں جس کے سائے تلے
لوریوں کے ترنم کو سنتی رہی
پھول چنتی رہی
گیت گاتی رہی
مسکراتی رہی
آج کچھ بھی نہیں

میری نظروں کے سہمے ہوئے آئینے
میری امی کے ، میرے ابا کے ، آپا کے
اور میرے ننھے سے معصوم بھیا کے خون سے
ہیں دہشت زدہ
آج میری نگاہوں کی ویرانیاں
چند مجروح یادوں سے آباد ہیں
آج میری امنگوں کے سوکھے کنول
میرے اشکوں کے پانی سے شاداب ہیں
آج میری تڑپتی ہوئی سسکیاں
اک سازِ شکستہ کی فریاد ہیں
اور کچھ بھی نہیں
بھوک مٹتی نہیں
تن پہ کپڑا نہیں
آس معدوم ہے

آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں

میری امی بنو
میرے ابا بنو
میری آپا بنو
میرے ننھے سے معصوم بھیا بنو
میری عصمت کی مغرور کرنیں بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو !!

بشکریہ: بلاگ .....تلاش میں ہے زندگی
کچھ ترامیم کے ساتھ

محمدﷺکی غلامی کا گلے میں طوق پہنا ہے

کہیں بھی ظلم کی تلوار سے ہرگز نہیں ڈرتے
کسی طاغوت کی چوکھٹ پہ اپنے سر نہیں جھکتے
 محمدﷺکی غلامی کا گلے میں طوق پہنا ہے
’’ھو اللہ احد‘‘اب چڑھ کے سولی پر بھی کہنا ہے
ہم ہی للکارِ قاسمؒ ہیں، ہم ہی شمشیر حیدرؓ ہیں
ہم ہی دشمن کے سینے میں کھبُا اک تیز خنجر ہیں
جلا دی ہم نے ساحل پر ہی اپنی کشتیاں ساری
کہ یہ سب کچھ نہیں، اس راہ میں ہو جان بھی واری
زبان اُگلے گی حق کی بات ہی چاہے وہ کٹ جائے
یہاں تک کہ عدُوِ دین خود رستے سے ہٹ جائے
یہ سینے صورتِ فولاد ڈٹ جاتے ہیں میدان میں
خدا کہتا ہے خود بُنیَانٍ مرصُوص ان کو قرآن میں
ہزاروں بند باندھو، ہم وہ طوفاں جو نہیں تھمتے
طلب منزل کی سچی ہو تو رستے میں نہیں جمتے
بھروسہ ہے ہمیں اللہ کی تائیدو نصرت پر
غلامانِ محمدﷺ تو ہتھیلی پر لیے ہیں سر
ہمیں دنیا سے کیا مطلب، ہم اس سے کچھ نہ لیتے ہیں
کہ ہم جنّت کے بدلے اپنی جاں کو بیچ دیتے ہیں
عدُو پر بپھرے شیروں کی طرح سے ہم جھپٹتے ہیں
پلٹتے ہیں، جھپٹتے ہیں، جھپٹ کر پھر پلٹتے ہیں

سوچو ذرا کیا پایا ہم نے؟

خلقتِ خدا اب رونے کو ہے
ماہِ رمضان بھی جدا ہونے کو ہے
سوچو ذرا کیا پایا ہم نے؟
کیا جانے اب نصیبوں میں یہ ماہ ہو نہ ہو
اُس کی رحمت کا کیا حق نبھایا ہم نے؟
اب بھی وقت ہے منا لو اپنے رب کو
کہ بابِ مغفرت ہاتھ سے جانے کو ہے

اے حرم تیرے بیٹے سلامت رہیں، تاقیامت رہیں

حرم کے بیٹوں کے نام!
جو اس وقت شرق و غرب میں اسلام اور امتِ محمدﷺ کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہی ہیں وہ جنہوں نے کفر کی للکار کا دنداں شکن جواب دیا۔ یا الہٰی ان غازیوں کے حوصلوں کو ہمالہ سے بھی بلند کر کہ اب یہی تو اس امّت کی لاج ہیں۔
.............................................................................................

4Shared Download Link
.............................................................................................
آواز: ابو جندل......البم: تخیل

4Shared Download Link
.............................................................................................
شاعر: احسن عزیز
اے حرم تیرے بیٹے سلامت رہیں
تاقیامت رہیں
تیرے غازی مجاہد تیرے جانثار
ان پہ رب کی عنایت رہے بے شمار
کوئی مشرق کی وادی میں لڑتا رہے
کو ئی مغرب میں بجلی کی صورت گرے
ان کے صبحیں سداباسعادت رہیں
ان کی شامیں رہینِ عبادت رہیں
یہ فلسطین کے پاسباں بن گئے
فخرِ کعبہ بلالی آذاں بن گئے
ان کی ہر چال دشمن پہ بھاری رہی
بحروبر میں بھی جنگ ان کی جاری رہی
ان کو حکمت کے گوہر ودیعت رہیں
ان کے سب کام تحتِ شریعت رہیں
یہ قدامت پسندی کی معراج ہیں
ولولے کے ان کے سینوں میں جو آج ہیں
ان کی ٹھوکر میں افرنگ کے تاج ہیں
میری امّت کے یہ نوجواں لاج ہیں
یہ طلب گارِ راہِ ہدایت رہیں
راہ روانِ سبیل شہادت رہیں
یا الٰہی یہ غازی سُبک خیز ہوں
منزلوں کی طرف اور بھی تیز ہوں
ان کی آنکھوں میں حق کے شرارے رہیں
برق اعصا یہ سب چاند تارے رہیں
میری ملت کی تاباں قیادت رہیں
اہلِ ایماں کے سینوں کی راحت رہیں

Friday, August 26, 2011

خدا نے تم سے خرید لی ہے یہ جان تمہاری اےماہ پارو!

اے سرفروشو !اے جانبازو!
تمہی تو ملت کے پاسباں ہو
تمہارے دم سے اجالے ہر سو
تمہی عزیمت کی داستاں ہو
بڑھو تو ایسے کہ بڑھتے جاؤ
عدو کی گردن اڑاتےجاؤ
کٹو تو ایسے خدا بھی کہہ دے
تمہی حقیقت سے آشنا ہو
یہ چاند تم کو کبھی جو دیکھے
حیا سے بادل کی اوٹ لے لے
سرخ جوڑا کبھی جو پہنو
پکار ے پورے کہ عاشقاں ہو
ستارے تم کو سنائیں سرگم
پکاریں غلماں کہاں ہو ہمدم
تمہاری خاطر سجی ہے جنت
تمہی تو میرانِ کارواں ہو
صبا جو چھو لے بدن تمہارے
پھرے ہےرقصاں خوشی کے مارے
یہ عشق و مستی تمہیں مبارک
تمہی تو جنت کے وارثاں ہو
خدا نے تم سے خرید لی ہے
یہ جان تمہاری اےماہ پارو!
غریب ناصر ؔبھلا نہ دینا
تمہی تو جنت کے وارثاں ہو
آواز: ناصر شیرازی



Thursday, August 25, 2011

تلاشنا ہے اُسی وطن کو اساس تھی لا اِلٰہ جس کی

تلاشنا ہے اُسی وطن کو
اساس تھی لا اِلٰہ جس کی
حصول جس کاتھا دیں کی خاطر
تھی انتہا لا اِلٰہ جس کی

وہ جس کی خاطر ضعیف ماؤں نے
اپنے بیٹے فدا کئے تھے
تلاشتا ہوں جب اِس وطن کو
تو ایسے لگتا ہے
دیس میرا
وہ کھو چکا ہے

چہار جانب سیاہ اندھیرے ہیں
جو میری جانب بڑھ رہے ہیں
سیاہ اندھیروں میں رقص کرتے ہوئے درندے
وہ جن کی آنکھوں سے
جن کے ہاتھوں سے
خون انساں ٹپک رہا ہے
وہ میری جانب بھی بڑھ رہے ہیں
میں ان لٹیروں میں گھر چکا ہوں
جو مجھ سے میری متاعِ ایمان
چھین لینے کو مضطرب ہیں
وہ کہہ رہے ہیں مفاہمت اُن سے کر کے
ہتھیار پھینک دوں میں
وہ مجھ کو آسائشیں بھی دیں گے
وہ میری قیمت لگا رہے ہیں
سیاہ تاریک راستوں میں
وفا کے دیپک بجھا رہے ہیں

میں اپنی روشن نسیم تاریخ سے
بغاوت کا جرم کر لوں
یہ کیسے ممکن ہے تیرگی سے
معاہدہ کوئی میں بھی کر لوں
میں آخری سانس تک لڑوں گا
میں اپنے خون کا ہر ایک قطرہ
اسی وطن پر فدا کروں گا
کہ جس کی خاطر ضعیف ماؤں نے
اپنے بیٹے فدا کئے تھے


موت کی وادی میں چل اسلاف کا دیدار کر

عاشقانہ موت مرنا ہے تو چل قندھار چل
پھر اُٹھائے ہاتھ میں شمشیر جوہردار چل

ارضِ کابل کی فضائیں کر رہی ہیں تجھ کو یاد
اُٹھ بزرگوں کی صدائیں کر رہی ہیں تجھ کو یاد
موت کی وادی میں چل اسلاف کا دیدار کر

موجزن ہے اک بہارِ بے خزاں قندھار میں
گونجتی ہیں دینِ حق کی بجلیاں قندھار میں
ہورہا ہے جمع ہر سو لشکر احرار چل
آواز: ناصر شیرازی


Monday, August 22, 2011

مرنے کے لیے جینے میں جینے کا مزا ہے

جاں ہار کے دل اپنا ہی خود جیت لیا ہے
اب میں ہوں، مری قبر ہے، رنگین قبا ہے
اک روح کہ جو خلد کی ہے عیش و طرب میں
اک جسم کہ زخموں کے مزے لوٹ رہا ہے
پھر لوٹ کے جانے کی تمنا ہے زمیں پر
پھر آرزوئے رزمِ گاہِ صبر و رضا ہے
پھر شوق ہے زخموں سے میں زینت دوں بدن کو
پھر ذوقِ طلب خون سے نہانے پہ تُلا ہے
پھر قلبِ تمنا ہے شہادت کی دُھن میں
پھر جان سے جانے کی پُر اسرار صدا ہے
نظریں تو بظاہر میری حوروں پہ ہیں لیکن
دل خالی کہ حورانِ بہشت ہی پہ فدا ہے
زندوں کو ہے پیغام جو زنداں میں ہے اب تک
آزاد جو ہونا ہے تو میدان کھلا ہے
ہر سو نظر آتی ہیں سعادت کی بہاریں
ہر سمت شہادت کی ہموار فضا ہے
سو جان بھی گر تم کو عطا ہو تو سمجھ لو
سو جان لٹانے کا جو مرکز ہے خدا ہے
جو زیست پہ مرتے ہیں بتا دو انہیں اطہرؔ
مرنے کے لیے جینے میں جینے کا مزا ہے


حضرت علی کرم اللہ وجہہ

علیؓ کو بُو تراب کہتے ہیں
علیؓ کو لاجواب کہتے ہیں
علیؓ کے نام کو چومنا نبیﷺ والےثواب کہتے ہیں
علیؓ معیارِ جرأت ہے
علیؓ شیرِخدا بھی ہے
علیؓ کی ادا مریضوں کے لیے شفا بھی ہے
علیؓ دستار ولیوں کا
علیؓ پرچار نبیوں کا
علیؓ پرچم ہے اسلام کا
علیؓ قاری ہے قرآن کا
صحابہؓ کی عزت کا کبھی انکار نہ کرنا
یہ سارے ہیں نبیﷺ والے کبھی تکرار نہ کرنا

مجھے علی رضی اللہ عنہ سے پیار ہے

وہ شخص اندھیروں میں اجالوں کی طرح تھا

پتھر تھا مگر برف کے گالوں کی طرح تھا
وہ شخص اندھیروں میں اجالوں کی طرح تھا
خوابوں کی طرح تھا نہ خیالوں کی طرح تھا
وہ شخص علمِ ریاضی کے سوالوں کی طرح تھا

الجھا ہوا ایسا کہ کسی سے حل نہ ہو سکا
سلجھا ہوا ایسا کہ مثالوں کی طرح تھا

Sunday, August 21, 2011

کٹی ہے بر سرِ میداں مگر جھکی تو نہیں

ہری ہے شاخِ تمنا ابھی جلی تو نہیں
دبی ہے آگِ جگر مگر بجھی تو نہیں
جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی
کٹی ہے بر سرِ میداں مگر جھکی تو نہیں
ابھی غلط ہے نمودِ رُخِ سحر کا خیال
ابھی تو سخت اندھیرا ہے شب ڈھلی تو نہیں
ابھی کچھ اور دکھائے گی روز بادِ خزا ں
چلے گی بادِ بہاری مگر ابھی تو نہیں
چمن میں آمدِ گلچیں ہے آگ برساؤ
یہ رسم و راہِ وفا ہےسرکشی تو نہیں

شاعر:جاویدؔ

اللہ کی قسم مر کر بھی ہم زندہ رہیں گے

ہونٹوں پہ وہی عشق کا پیغام رہے گا
جو کام تھا وہ کام ہے وہ کام رہے گا
اللہ کی قسم مر کر بھی ہم زندہ رہیں گے
قاتل! ترے سر پر مگر الزام رہے گا

نہ ہم منزل سے باز آئے نہ ہم نے راستہ بدلا

زمانہ معترف ہے اک ہمارے استقامت کا
نہ ہم سے قافلہ چُھوٹا نہ ہم نے رہنما بدلا
رہِ الفت میں گو ہم پر بڑا مشکل مقام آیا
نہ ہم منزل سے باز آئے نہ ہم نے راستہ بدلا

ایمان یہاں بھی اندھے ہیں

دستور یہاں بھی اندھے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں
تقدیر کے کالے کمبل میں عظمت کے شانے لپٹے ہیں
مضمون یہاں بھی بہرے ہیں عنوان یہاں بھی اندھے ہیں

لہو کیا ہے؟؟

لہو کیا ہے؟
لہو احساس ہے، ادراک ہے اور آگہی بھی ہے
لہو آواز، بینائی، سماعت، زندگی بھی ہے
لہو لہجہ، تخیل، سوچ، جرأت، تازگی بھی ہے
لہو جب آنکھ سے ٹپکے تو دھرتی ذرد پڑ جائے
لہو جب محوِ رقصِ زیت ہو تو ارض مہکائے
صفِ اغیار کے لشکر اُلٹ دے چند لمحوں میں
لہو باہوش لوگوں کا کبھی گر جوش میں آئے
لہو نظارگیئ مہ پرستی کا آئینہ
لہو ہنسنا، لہو رونا، لہو جینا، لہو مرنا

شاعر: سلیم اخترؔ قریشی

Saturday, August 20, 2011

ظالموں پر نہ افسوس کرے کوئی

ظالموں پر نہ افسوس کوئی کرے
قاتلوں پر نہ آہیں کو ئی بھی بھرے
جن کو مٹی کا پیوند رب نے کیا
جو ہو مومن اُنہیں آج پرسہ نہ دے!
قاتلو!
ہاں تم ہی ہو نا وہ
جس نے برسوں تلک
میرے بغداد اور اُس کے اطراف میں
میری مظلوم امّت کے ایک دو نہیں
پورے دس لاکھ بچّوں کا مسلح کیا
ماؤں کی جھولیوں سے اُنہیں کھینچ کر
بھوک اور مرض کے جال میں بھینچ کر
کند چھریوں سے اُن کو ذبح کر دیا
کافرو!
پھر تم ہی ہو نا وہ
جس نے تیموروکشمیروشیشان میں
جس نے فلپین و صومال و سوڈان میں
میرے ایک ایک قاتل کو پرسہ دیا
نیل کے ساحلوں سے ملایا تلک
ردِّ اسلام کی جو بھی سازش ہوئی
سر پرستی تمہاری ہی اُس میں رہی
اور کسی نے نہیں
میری اقصیٰ کو تاراج تم نے کیا
میرے کعبہ کو گھیرے میں تم نے لیا
وہ جزیرہ عرب کا جہاں پر کبھی
اُترا کرتے تھے جبرئیل لے کر وحی
اُس کی حرمت کو پامال تم نے کیا
سرزمینِ حرم ، وہ دیارِنبیﷺ
جس سے لشکر نکلتے تھے اسلام کے
اپنے ناپاک قدموں سے روندا اُسے
اُس کے پانی پہ خشکی پہ قبضہ کیا
پوری امّت کو نرغے میں ایسے لیا
اُس کے اڈّوں سے اُڑ اُڑ کے چاروں طرف
تم نے ہی ٹام،ہاک اور ڈیزی کٹر
ہم پہ برسائے دن رات شام وسحر
ہم پہ یورانیم کی جو بارش ہوئی
تمہارے ہی دستِ ستم سے گری
یہ تم ہی تھے کہ جن کی ہوَس کی نظر
کتنی معصوم کلیوں کے دامن ہوئے
کتنے سجدہ کُناں تھے کے جن کے بدن
آن کی آن میں چیتھڑے بن گئے
یہ تمہارا ستم در ستم دیکھ کر
چیخنے تک کی نہ تھی اجازت مگر
پھر بھی چُپ سادھ کر
ہم سسکتے،بلکتے،تڑپتے رہے
ہاتھ پر ہاتھ رکھے یوں ہی بے سبب
آسمانی مدد کو ترستے رہے
خود پہ ہنستے رہے
ذلّتوں کا یہ زہرآب پیتے رہے
روز مرتے رہے روز جیتے رہے
اب مگر قاتلو!
انتہا ہو گئی
امن کی لوریاں سن چکے ہم بہت
وہ کہانی گئی
وہ فسانہ گیا
ہر بہانہ گیا
ہاتھ پر ہاتھ رکھے یوں ہی بے سبب
آسماں دیکھنے کا زمانہ گیا
’’وَأَعِدُّوْا۟ لَهُم ‘‘ کی سناء تھام کر
’’تُرْهِبُوْنَ بِہٖ‘‘ کا علم گاڑ کر
دامنِ ہند و کش میں برسوں تلک
ہم نے’’اَلْحَمْدُ ‘‘ سے لے کر ’’وَالنَّاسِ‘‘ تک
جو بھی کچھ ہے پڑھا وہ بھلایا نہیں
ہم پہ روئیں ہماری ہی مائیں سدا
ہم نے تم کو اگر خوں رُلایا نہیں
روند کر اہلِ ایمان کی بستیاں
کیسی جنت بسانے کے خوابوں میں ہو
یہ تو ممکن نہیں عیش سےتم رہو
اور ملت ہماری عذابوں میں ہو
منتظر اب رہو
ہاتھی والو!
زرا آسمانوں سے لکھے نوِشتے پڑھو
بڑھ رہے ہیں تمہارے قلعوں کی طرف
موت کے کچھ بگولے ، کچھ آتش فشاں
جُرأتوں کے دھنی ، امّتوں کے نشاں
کچھ ابابیل ، ایسے شہیدی جواں
لو تباہی کا اپنی تماشا کرو
عمر باقی ہے جو زخم دھوتے رہو
خود پہ روتے رہو!
ظالموں پر نہ افسوس کوئی کرے
قاتلوں پر نہ آہیں کو ئی بھی بھرے
جن کو مٹی کا پیوند رب نے کیا
جو ہو مومن اُنہیں آج پرسہ نہ دے!۔

صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولﷺ بس

اک دن رسول پاکؐ نے اصحاب سے کہا
دیں مال راہ حق میں جو ہوں تم میں مالدار
ارشاد سن کے فرط طرب سے عمرؓ اٹھے
اس روز ان کے پاس تھے درہم کئی ہزار
دل میں یہ کہہ رہے تھے کہ صدیقؓ سے ضرور
بڑھ کر رکھے گا آج قدم میرا راہوار
لائے غرضکہ مال رسول امیںؐ کے پاس
ایثار کی ہے دست نگر ابتدائے کار
پوچھا حضور سرور عالمؐ نے ، اے عمرؓ!
اے وہ کہ جوش حق سے ترے دل کو ہے قرار
رکھا ہے کچھ عیال کی خاطر بھی تو نے کیا؟
مسلم ہے اپنے خویش و اقارب کا حق گزار
کی عرض نصف مال ہے فرزند و زن کا حق
باقی جو ہے وہ ملت بیضا پہ ہے نثار
اتنے میں وہ رفیق نبوت بھی آگیا
جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار
لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت
ہر چیز ، جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار
بولے حضورؐ، چاہیے فکر عیال بھی
کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار
اے تجھ سے دیدۂ مہ و انجم فروغ گیر !
اے تیری ذات باعث تکوین روزگار!
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولﷺ بس


’’وطنیت‘‘ ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے

اس دور میں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور

مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے

نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک مں اس بت کو ملا دے !

ہو قید مقامی تو نتجہ ہے تباہی
رہ بحر مں آزاد وطن صورت ماہی

ہے ترک وطن سنت محبوب الہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی

گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے


اے ماہِ رمضان!

اے ماہِ رمضان آہستہ چل
ابھی کافی قرض چکانا ہے
’’اللہ‘‘ کو کرنا ہے راضی
اور گناہوں کو بخشوانا ہے
کچھ خواب ہیں جن کو لکھنا ہے
اور تعبیروں کو پانا ہے
کچھ لوگ ہیں اجڑے دل والے
ان دلوں میں پیار بسانا ہے
اور خزاں رسیدہ آنگن میں
خوشیوں کا دیپ جلانا ہے
کچھ توبہ کرنا باقی ہے
اور ’’رب‘‘ کو ہم نے منانا ہے
جنت کا کرنا ہے سودا
اور دوزخ سے خود کو بچانا ہے
اے ماہِ رمضان آہستہ چل
ابھی کافی قرض چکانا ہے

’’حمد باری تعالیٰ‘‘ ایک خامہ فرسائی

حمد:خدائے بزرگ و برتر کی تعریف و ثنا، ستائش۔

اگر کائنات کی وجہ تخلیق پر غور کیا جائے تو وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ رب ذولجلال نے تمام جن و انس و ملائکہ کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ اور اس کی عبادت کیا ہے؟ اپنی عبدیت(بندگی) کا اظہار اور اللہ رب العزّت کی بڑائی، پاکی اور بزرگی کا بیان۔
اگر ہم قرآن کریم کی پہلی وحی کو اٹھا کر دیکھیں تو جو بات عیاں ہوتی ہے وہ اللہ کی حمد و ثنا ہی ہے۔

ٱقْرَأْ بِٱسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِىْ خَلَقَ ۔
اے نبی ﷺ اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا۔

قرآن کریم کی پہلی سورۃ کا مطالعہ کیا جائے تو وہ سراسر ہے ہی رب کی حمد وثنا۔

اے ربّ ذولجلال تو بہت کریم ہے۔ تو بہت عظیم ہے۔ تیری حمد و ثنا بیان کرنے سے ہم انسان کیا یہ کائنات پوری کی پوری عاجز ہے۔
اگر دنیا کے تمام سمندر سیاہی ہو جائیں اور تمام درخت قلم بن جائیں اور ازل سے ابد تک تیری پاکی و بزرگی لکھتے رہیں تو یہ فانی اشیاء فنا ہو جائیں۔ تیری بزرگی و برتری کا کچھ احاطہ نہ کر سکیں۔
بے شک ہم ہیچ ہیں، ہمارے الفاظ ہیچ ہیں، ہمارے خیالات ہیچ ہیں۔ تو بہت بڑا ہے، تو بہت بڑا ہے، تو بہت بڑا ہے، تو سب سے بڑا ہے۔

کہاں سے ابتدا کروں کہاں پہ انتہا کروں
کہاں سے لاؤں زباں یا رب! کیسے تری ثنا کروں

میری سوچ ہے محدود سی میرے قلم میں اتنی سکت نہیں
کہ تیری بڑائی بیان کروں اور اس بیاں سے وفا کروں

Friday, August 19, 2011

شہادت رُتبہ اَولیٰ محبت کے قرینوں میں

شہادت رُتبہ اَولیٰ محبت کے قرینوں میں
یہ بھڑکی آگ اب اِس ساری بستی کے مکینوں میں
وفا جس سے نبھاؤ گے، اُسی کے ساتھ جاؤ گے
ہیں یہ خوشخبریاں محبوبِ جاں کے ہم نشینوں میں
وہ سوزِ دل ، وہ چشمِ تر ، تڑپ دعوت کی ہر اِک تک
گِراں تحفے یہ اُمت کو دیے سارے خزینوں میں
یہاں دندانِ اَقدس ، واں مُبارک خون کے قطرے
کہ ہیں جنت کے سنگ میل اُحد کے اِن دفینوں میں
کہو طائف ، بدر ، خندق کے رستے چھوڑ بیٹھے ہو
تو جنت ڈھونڈتے پھرتے ہو بولو کِن زمینوں میں
سلگتی ہے دعاؤں سے، ہواؤں سے نہیں بجھتی
محبت کی جو چنگاری جلی شُہدا کے سینوں میں
اُحد میں حمزہؓ و مُصعبؓ کی، عبداللہؓ کی شاں دیکھو
ہیں ہیرے لعل ایسے لوگ مٹی کے دفینوں میں
جلا دے تَوبہ و اَنفال سے راتوں میں موجوں کو
دُعائے سحر سے پھر بجلیاں بھر دے سفینوں میں
میرے ایماں کے ساتھی یہ جاں یوں مت گنوا دینا
کہ تلواروں کے سائے ہیں تیری منزل کے زینوں میں
دِلوں کو اے میرے اللہ جو ذوقِ طلب بخشا
تو اب سجدے تیرے ہی نام کے ہیں ان جبینوں میں


جو ہوں فرعون ان کو میں خدا کہہ دوں یہ مشکل ہے

جو ہوں فرعون ان کو میں خدا کہہ دوں یہ مشکل ہے
جو ہوں دجال ان کو میں انبیاء کہہ دوں یہ مشکل ہے
مجھے زنجیر پہنا دو، مجھے سولی پہ لٹکا دو
مگر میں رہزنوں کو رہنما کہہ دوں یہ مشکل ہے
قبا پوشی کے پردے میں جو عیاشی کے رسیا ہیں
میں ایسوں کو شیوخ و صُوفیاء کہہ دوں یہ مشکل ہے
کھلی آنکھوں سے جو کچھ دیکھتا ہوں صاف کہتا ہوں
کسی کے ڈر سے ظلمت کو ضیاء کہہ دوں یہ مشکل ہے
جو طوفاں کی خبر سن کر لرزتے ہیں کناروں پر
میں ایسے بزدلوں کو ناخدا کہہ دوں یہ مشکل ہے
یہی اِک بوریا ہے چھین لیں درویش سے بے شک
شہنشاہوں کو ظلّ کبریا کہہ دوں یہ مشکل ہے
خدا مشکل میں خود مشکل کشا ہے اپنے بندوں کا
کسی مشکل میں اُن کو مشکل کشا کہہ دوں یہ مشکل ہے

شاعر: سید امین گیلانیؒ

جنگ لازم ہو تو۔۔۔۔۔۔

ایک خوبصورت شعرجو عملِ پیہم کی راہ دکھلاتا ہے۔ حدیث مبارکہ یا آثارِ صحابہ میں سے ہے کہ ’’جنگ کی تمنا مت کرو، لیکن اگر جنگ ناگزیر ہو جائے تو میدان سے پیٹھ مت پھیرو‘‘۔

زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا؟
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے

آزادی نہیں آتی

آزادی کا دن تو ہر سال آتا ہے اور 64 برس ہوئے آرہا ہے، لیکن کیا ہم آزاد ہیں؟؟؟؟
مجھ دقیانوس کو تو آزادی کے مفہوم میں ہماری حالت کہیں منطبق ہوتی نظر نہیں آتی۔۔۔۔۔آپ کیا کہتے ہیں؟؟


ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن آجاتا ہے آزادی کا،آزادی نہیں آتی

گستاخی تیری شان میں، یہ دم ہے کس شیطان میں



لبیک محمد صلِّ علیٰ۔۔ لبیک محمد صلِّ علیٰ
گستاخی تیری شان میں ۔۔ یہ دم ہے کس شیطان میں

سب دیوانے بیدارہیں ۔۔جذبوں سے یہ سرشار ہیں
کٹ مرنے کو تیارہیں ۔۔ وہ ولولۂ ایمان میں

ہم یک دل ہیں، یک جان ہیں ۔۔ غیرت کا اِک اعلان ہیں
حُرمت پہ تیری قربان ہیں ۔۔ پکے ہیں اِس پیمان میں

ہم اپنی جانیں ہاریں گے ۔۔ اولادوں کو بھی واریں گے
ہم تیرے دشمن ماریں گے ۔۔ جو آئیں گے پہچان میں

اے دونوں عالم کے سرور ۔۔ بس تیرے ایک اشارے پر
لے کر آئے ہیں اپنا سر ۔۔ ہم بخشش کے سامان میں

شیرانِ محمد دھاڑیں گے ۔۔ ایمان کے جھنڈے گاڑیں گے
باطل کے بیج اُکھاڑیں گے ۔۔ للکاریں گے میدان میں

باطل سے ناطہ جوڑ کر ۔۔ بیٹھے ہیں قسمت پھوڑ کر
دامن کو تمہارے چھوڑ کر ۔۔ یہ ملت ہے بحران میں

اقوام یہودی، نصرانی ۔۔ کینہ ہے جن کا لاثانی
مت کرنا اِن کی دربانی ۔۔ یہ لکھا ہے قرآن میں

کردار و عمل کے بونوں نے ۔۔ باطل کے ہاتھ کھلونوں نے
اِس دور کے کچھ فرعونوں نے ۔۔ ڈالا ہے امتحان میں

ہے جنگ اندھیروں سے ۔۔ نکلے ہیں رہن بسیروں سے
اب کون الجھے گا شیروں سے ۔۔ اِ س زوروں کے گھمسان میں

افضالؔ زمانہ کیا جانے ۔۔ ہم عشقِ نبی کے مستانے
شمع پہ واری پروانے ۔۔ جیتے مرتے ہیں آن میں


Monday, August 15, 2011

تُو مجاہد، تُو فرزندِ قوم و وطن

تُو مجاہد، تُو فرزندِ قوم و وطن

تُو بہادر، تو غازی، تو شمشیر زن

تجھ کو پہچانتے ہیں زمان و زمن

اے جوانِ وطن! اے وقارِ وطن


تُو سَجیلوں کا دل، جیالوں کا راز

تُو بہاروں کا خالق ،زمیں کا سُحاب

تُو فروغِ نظر، جانِ من جانِ من

اے جوانِ وطن! اے وقارِ وطن


تُو جہاں میں اخوت کا پیغامبر

تُو رہے حُریت کا جواں رہبر

تُو ہے خورشیدِ اَمن و اَماں کی پھبن

اے جوانِ وطن! اے وقارِ وطن


سرد ہے عشقِ انساں کا آتش فشاں

گرم رہتاہے بازارِ سُود و زیاں

تجھ سے مٹ جائے گا دشمنوں کا نشاں

تُو رہے گا یونہی زندۂ و کامراں


ہم جہادِ وطن پر رہے ہیں سدا

متفق، متحد، ہم قدم، ہم نوا

بزم، تنظیم، ملت ہے جلوہ فگن

اے جوانِ وطن! اے وقارِ وطن

بلاگ کا تعارف

السلام علیکم
اردو زبان میری پیاری زبان
اردو شاعری کو پوری دنیا کی شاعری میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اور اگر شاعری با مقصد بھی ہو، یعنی پڑھنے اور سننے والے کو ایک اعلیٰ مقصد سے بھی روشناس کرائے تو کیا ہی کہنے۔۔۔۔
اردو شاعری میں مجھے اسلامی شاعری سب سے زیادہ پسند ہے اور پھر اسلامی شاعری میں حمد و نعت کے بعد جو قسم میرے دل کے تار چھیڑتی ہے وہ رزمیہ شاعری ہے۔

اس بلاگ پر اردو زبان میں موجود اسلامی شاعری (آواز اور کلام ) کا اشتراک کیا جائے گا۔ شاعری کی تمام اقسام حمد و نعت، منقبت، قصیدہ اور رزمیہ اشعار شامل ہوں گے۔انشاءاللہ