اللہ کے انصار مددگار سپاہی
اسلام کی عظمت کے نگہدار سپاہی
باطل کی خدائی کو گوارا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
انصاف سے پھر آدمی منہ موڑ چکا ہے
سچائی سے پیمانِ وفا توڑ چکا ہے
دامانِ یقیں صبر و رضا چھوڑ چکا ہے
ہم زندہ رہ و رسم کا پیمانہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
سینےسے ہر اک نقشِ کدورت کو مٹا کر
تفریق کے بھڑکے ہوئے شعلوں کو بجھا کر
دم لیں گے ہم انسان کو انساں سے ملا کر
آباد پھر اجڑا ہواکاشانہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
خوشنودیٔ رب مقصد ہستی ہے ہمارا
قرآن ہی دستورِ اساسی ہے ہمارا
قائد بھی محمدﷺ سا مثالی ہے ہمارا
اب ہم کسی رہبر کی تمنا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
دشمن سے تیرے ہم کوئی پیماں نہ کریں گے
جینے کے لئے موت کا ساماں نہ کریں گے
رسوائیٔ ملت پہ چراغاں نہ کریں گے
ایسا نہ کریں گے کبھی ایسا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
اقرار ہمارا ہے زمانے کی نظر میں
انکار ہمارا ہے زمانے کی نظر میں
کردار ہمارا ہے زمانے کی نظر میں
ہم اپنی ہی تصویر کو رسوا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
پیغامِ سکوں راحت جاں لے کے اٹھے ہیں
اک سوز یقیں عزمِ جواں لے کے اٹھے ہیں
ہم جذبۂ تعمیرِ جہاں لے کے اٹھے ہیں
سنگینیٔ حالات کی پرواہ نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
اک موسم گل رنگِ بہاراں ہے نظر میں
اک نورِ سحر جلوۂ تاباں ہے نظر میں
تاریخ کا اک عہد درخشاں ہے نظر میں
ہم سنگ ِ درِ وقت پہ سجدہ نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
صدیقؓ کا دل، زورِ علیؓ بخش دے یا رب
فیاضیٔ عثمان غنیؓ بخش دے یا رب
فاروقؓ کی عالی نگہی بخش دے یا رب
آراستہ پھر محفلِ جانا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
عزیز بگھرویؔ