تقدیر امم ہو کہ تقدیر شاہی..... قصہ تمام طاؤس و رباب اور مے سے ہی ہوتا ہے۔ فقط احوالِ محبت ہی ہیں جن کے اوّل و آخر عاشقانِ راہِ حق پر یکساں گزرتے ہیں۔ اور اگر یوں کہا جائے کہ احوالِ محبت میں آخر یا انتہا آتی ہی نہیں تو بھی غلط نہ ہوگا۔
.............................................................................................
.............................................................................................
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر ، اٹھتے ہیں حجاب آخر
احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اول ، سوزو تب و تاب آخر
میں تجھ کو بتاتا ہوں ، تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول ، طاؤس و رباب آخر
میخانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول ، دیتے ہیں شراب آخر
کیا دبدبہ نادر ، کیا شوکت تیموری
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق مے ناب آخر
خلوت کی گھڑی گزری ، جلوت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
علامہ محمد اقبالؒ