Wednesday, November 09, 2011

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

تقدیر امم ہو کہ تقدیر شاہی..... قصہ تمام  طاؤس و رباب اور مے سے ہی ہوتا ہے۔ فقط احوالِ محبت ہی ہیں جن کے اوّل و آخر عاشقانِ راہِ حق پر یکساں گزرتے ہیں۔ اور اگر یوں کہا جائے کہ احوالِ محبت میں آخر یا انتہا آتی ہی نہیں تو بھی غلط نہ ہوگا۔
.............................................................................................
.............................................................................................
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر 
کرتے ہیں خطاب آخر ، اٹھتے ہیں حجاب آخر 
احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا 
سوز و تب و تاب اول ، سوزو تب و تاب آخر 
میں تجھ کو بتاتا ہوں ، تقدیر امم کیا ہے 
شمشیر و سناں اول ، طاؤس و رباب آخر 
میخانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں 
لاتے ہیں سرور اول ، دیتے ہیں  شراب آخر 
کیا دبدبہ نادر ، کیا شوکت تیموری 
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق مے ناب آخر 
خلوت کی گھڑی گزری ، جلوت کی گھڑی آئی 
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر 
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا 
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
علامہ محمد اقبالؒ

3 تبصرے:

ثاقب شاہ said...

اسلام و علیکم،
نظم پڑھ کر IJTمیں گزرا ہوا زمانہ یاد آگیا. اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ ماشا اللہ آپ نے اپنے بلاگ کی اچھی تنظیم کاری کی ہوئی ہے۔

ثاقب شاہ
colourislam.blogspot.com

عبداللہ said...

وعلیکم السلام
شکریہ محترم ثاقب شاہ

Rizwanqureshi said...

بے حد شاندار انتخاب جزاک اللہ

Post a Comment

السلام علیکم
اگر آپ کو یہ مراسلہ اچھا یا برا لگا تو اپنے قیمتی رائے کا اظہار ضرور کیجیے۔
آپ کے مفید مشوروں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔