Thursday, September 15, 2011

شہید کا ہے مقام کیسا؟ افق کے اُس پار جا کے دیکھو

شہید کے مقام کا اس بات سے بخوبی عیاں ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے لیے شہادت کی موت کی تمنّا کی ہے۔ اور بہترین شہادت وہی ہے جس کا جام میدانِ جنگ میں دشمنانِ دین سے بر سرِ پیکار رہتے ہوئے پیا جائے۔ یہی تو وہ واحد ہتھیار ہے جس کا توڑ دشمنانِ دین الٹے لٹک کر بھی پیش نہیں کر سکتے۔
.............................................................................................

آواز: غازی عبد الرشیدؒ

.............................................................................................

آواز: ابو جندل.....البم: تخیل


4Shared Download Link
.............................................................................................


شہید کا ہے مقام کیسا؟ افق کے اُس پار جا کے دیکھو
حیاتِ تازہ کیا مزے ہیں ؟ذرا یہ گردن کٹا کے دیکھو
یہ حسنِ فانی کی کیا طلب ہے؟خدا کے عاشق بنو تو تب ہے
گلاب بن کے مہک اٹھیں گے، جگر پہ یہ زخم کھا کے دیکھو
کسی کے دل پہ گمان نہیں، نا خبر  ذراچشم و گوش کو ہے
شہید پر جو عنایتیں ہیں،کتاب و سنت کو اُٹھا کے دیکھو
نکھرتا جائے گا تن بدن اور جمال آئے گا خال و خط پہ
بڑھے گا حسن و جمال کتنا؟ ذرا لہو میں نہا کے دیکھو
وہ باغِ جنت کی نازنیں، جو تمہاری دلہن بنی کھڑی ہیں
تمہی تو دلہا ہو ،دیر کیسی؟ یہ سرخ مہندی لگا کے دیکھو
نہیں ناداں کو کچھ خبر یہ شعور والے ہی جانتے ہیں
 خدا کی جو میزبانیاں ہیں،وفا کی رسمیں نبھا کے دیکھو
غرور تم کو نہیں ہے زیبا، اسے نہ اوڑھو خدا کا حق ہے
ملیں گے عظمت کے تاج کیا کیا؟ ذرا سا خودکو مٹا کے دیکھو
یہ تیرو تلوار اور خنجر، تمہارے زیور ہیں اے جوانو!
حسین لگتے ہو کس قدرتم، یہ اسلحہ تو سجا کے دیکھو

Wednesday, September 07, 2011

اپنے ایمان کی آبیاری کریں، دل پہ اللہ کا خوف طاری کریں

دین کی راہ میں چلنے والوں اور راہِ خدا میں جلنے والوں کا سب سے بڑا سرمایہ ایمان، خشیتِ الہٰی اور رب کی رضا کا حصول   ہی ہوتا ہے۔ ان کا فخر صرف اور صرف تہذیبِ اسلامی کی سربلندی اور دنیائے کفر کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ میں ہی ہے۔ اس کے لیے وہ کسی احمق کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔




اپنے ایمان کی آبیاری کریں، دل پہ اللہ کا خوف طاری کریں 
صبح شام اس کے اذکار کا ورد ہو اور دروسِ نبی لب پہ جاری کریں 
تاکہ جب اس کے دربار میں جائیں ہم
دل میں کچھ خوف ہو اور نہ آنکھیں ہوں نم
شوقِ جنت نہ منزل سے پہلے ہو کم
اور سبیلِ ہدیٰ سے ہٹیں نہ قدم
اپنی محرومیوں کا ازالہ کریں
دین کے چاند کا خود کو ہالہ کریں
ہم کو تہذیبِ اسلام پر فخر ہو
احمقوں کی ملامت سے کیوں ہم ڈریں
دل کی آنکھوں سے قرآن پڑھتے چلیں
آؤ جنت کے زینے پہ چڑھتے چلیں
مل کے جیشِ صلیبی سے لڑتے چلیں
اپنی ملت کے زخموں کو بھرتے چلیں
میری ملت کو مل جائیں ایسے جواں
جن کے ہر گھات پر ہو نشانِ اٹل
پھر سے اسلاف کی یاد تازہ کریں
آنچ آنے نہ دیں، دین پر کٹ مریں
یوں توکل کی پتوار کو تھام لیں
بادبانِ شجاعت کو اونچا کریں
سجدۂ شکر ساحل پہ پہنچیں کریں
صورتِ دیگراں راہ میں کٹ مریں
ہم اخوت کا اک نغمۂ جان فزا
جان و تن ان کی خاطر نہ ہو کیوں فدا
وہ جو ہجرت کی راہوں میں مارے گئے
جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں

Tuesday, September 06, 2011

میں تیری راہ میں گردن کٹا کے آیا ہوں

 یہ جان رب کی ہے اور اسے اُسی کی راہ میں کٹانا مؤمن کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔
یہ شہادت کا ہی جذبہ ہے جو مسلم کو پوری دنیا کی اقوام سے ممتاز کرتا ہے۔ یہی جذبہ ہے جو مسلمانوں کے عروج کی ضمانت ہے۔
--------------------------------------------
آواز: محمد بن عابد




جگر کی پیاس لہو سے بجھا کے آیاہوں
میں تیری راہ میں گردن کٹا کے آیا ہوں
جو تیرے وصل میں حائل تھے جیتے جی یا رب
تمام راہ کےپتھر ہٹا کے آیاہوں
تمام حور و ملائک ہیں محوِ استقبال
میں سر پہ تاجِ شہادت سجا کے آیا ہوں
مجھے نہ غسل دو پہنچاؤ، تحتہ الانھار
میں اپنے خون سے خود ہی نہا کے آیا ہوں
مجھے بھی چاہتے تھے امی ،ابو، بھائی، بہن
میں سب کو خون کے آنسو رُلا کے آیا ہوں
مجھے تو مدتوں رویا کریں گے اہلِ جہاں
زہے نصیب کہ میں مسکرا کے آیا ہوں

ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

 ثنا خوانانِ تقدیسِ مشرق کو ایک آوازِ مظلومانہ ہے! مشرق کی بیٹی کی عزت و ناموس کے دعوے بجا، حیا کی کلی کی تعریف و ثنا بجا۔ لیکن اک نظر ادھر بھی۔ کہ یہ بھی کسی کی بیٹی، کسی کی ماں اور کسی کی بہن ہے۔ ارے تمہیں یہ مشرق اور اسلام کے ماتھے پر لگا کلنک کا ٹیکہ نظر کیوں نہیں آتا۔ کیا اس وقت کا انتظار ہے جب یہ طوفانِ بے حیائی تمہارے دروازے پر دستک دے گا؟
--------------------------------------------
شاعر: ساحر لدھیانوی
یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
یہ پر پیج گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی یہ سِکّوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
تعفّن سے پر نیم روشن یہ گلیاں
یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں
یہ بکتی ہوئی کھوکلی رنگ رلیاں
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
وہ اجلے دریچوں میں پائل کی چھن چھن
تنفس کی الجھن پہ طبلے کی دھن دھن
یہ بے روح کمروں میں کھانسی کی ٹھن ٹھن
ثنا خوان تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
یہ گونچے ہوئے قہقہے راستوں پر
یہ چاروں طرف بھیڑ سی کھڑکیوں پر
یہ آواز کھنچتے ہوئے آنچلوں پر
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
یہ پھولوں کے گجرے یہ پیکوں کے چھینٹے
یہ بے باک نظریں یہ گستاخ فقرے
یہ ڈھلکے بدن اور یہ مدقوق چہرے
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
یہ بھوکی نگاہیں حسینوں کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب
لپکتے ہوئے پاؤں زینوں کی جانب
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
یہاں پیر بھی آچکے ہیں جواں بھی
تنو مند بیٹے بھی، ابا میاں بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے ماں بھی
ثنا خوان تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
مدد چاہتی ہے یہ حوّا کی بیٹی
شودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
بلاؤ خدایانِ دین کو بلاؤ
یہ کوچے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھاؤ
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کو لاؤ
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

Monday, September 05, 2011

بے پردگی کا عالم

بے پردگی کا عالم
میں کس طرح بتاؤں
زہریلا سانپ ہے یہ
امّت کو ڈس نہ جائے
ہر سمت دیکھ لو اب طوفانِ بے حیائی
باطل سے ہے محبت اور حق سے بے پراوئی
بہنوں کے مشغلوں سے بھائی بھی بے خبر ہیں
پوچھیں تو کس طرح وہ خود ’’اِدھر اُدھر‘‘ ہیں
بیٹی بھی لاڈلی ہے پردہ کرے کیسے؟
آنگن میں اپنے گھر کے جی کو بھرے تو کیسے؟
یہ آگ ہے مغرب کی
اور کام حماقت کے
لو ہو گئے نمایاں آثار قیامت کے!

Sunday, September 04, 2011

اے لاالہٰ کے وارث



اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ! 
ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ 
تعمیر آشیاں سے میں نے یہ راز پایا 
اہل نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ 
یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی 
یا بندۂ خدا بن یا بندۂ زمانہ! 
غافل نہ ہو خودی سے، کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ
اے لَا اِلٰہ کے وارث! باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتار دلبرانہ، کردار قاہرانہ
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ
راز حرم سے شاید اقبال باخبر ہے
ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ

علامہ محمد اقبالؒ

Thursday, September 01, 2011

تو کیوں ماتم نہیں ہوتا؟

انسان ہونا یا انسانیت کا ہونا صرف روح اور بدن کے تعلق پر انحصار نہیں رکھتا۔ روح اور بدن کا رشتہ تو جانوروں میں بھی ہوتا ہے۔ پھر ایک جانور اور انسان کی موت کا اثر ہمارے دل و دماغ پرمختلف اثر کیوں رکھتا ہے؟
یہ صرف اور صرف انسان کا کردار ہی ہوتا ہے جو اسے زندہ رکھتا ہے اور مرنے کے بعد بھی مرنے نہیں دیتا۔  انسان کی شخصیت اور سوچ و افکار لوگوں کے ذہنوں میں صدیوں تک زندہ رہتے ہیں، اور وہ مر کر بھی یہیں کہیں ہمارے قریب ہوتا ہے۔
جوں جوں انسان نے آسائشِ زندگی کے آلات میں ترقی کی، انسانیت کے معیار نے بھی ترقی کی لیکن افسوس کہ یہ ترقی تنزلی کی طرف زیادہ رہی۔ پرانے دور(یعنی پتھر کے دور میں، جہاں جانے سے ہمیں بہت ڈر لگتا ہے) میں انسان اچھے کردار کی وجہ سے یاد رکھے جاتے تھے، اب ترقی ہو گئی ہے ،اب برے کردار کے لوگ یاد رکھے جاتے ہیں۔ خیر اب تو برے اور اچھے کردار کا معیار طے کرنا بھی ہمارے ہاتھ میں نہیں۔۔۔۔۔۔

بدن سے روح جاتی ہے تو بچھتی ہے صفِ ماتم
مگر کردار مر جائے تو کیوں ماتم نہیں ہوتا؟