تقدیر امم ہو کہ تقدیر شاہی..... قصہ تمام طاؤس و رباب اور مے سے ہی ہوتا ہے۔ فقط احوالِ محبت ہی ہیں جن کے اوّل و آخر عاشقانِ راہِ حق پر یکساں گزرتے ہیں۔ اور اگر یوں کہا جائے کہ احوالِ محبت میں آخر یا انتہا آتی ہی نہیں تو بھی غلط نہ ہوگا۔
یہ جنگ جو ہلال اور صلیب کے درمیان جاری ہے، ایک پرانا تسلسل ہے اور مسلمانوں کے زوال کے بعد بھی کفار اپنے پرانے زخم بھولے نہیں.....جو انہیں مسلمانوں نے عمرؓ، علیؓ، امیر معاویہؓ، خالدؓ، ابو عبیدہؓ، ضرارؓ، سعدؓ بن ابی وقاص اور زنگیؒ و ایوبیؒ کی شکل میں دیے تھے..... بلکہ مسلمانوں کو کمزور دیکھ کر ان کی زبانیں و کمانیں اور باہر کو نکل آئیں۔ تو اب منتظر رہیں اپنے آباء کی طرح کٹنے، پٹنے اور مرنے کوکہ ایوبیؒ کے روحانی فرزندوں نے ان کے لیے تباہی کا سامان کر رکھا ہے۔
حق و باطل کی صفوں کا فرق روزِ ازل سے ہی واضح ہے۔ جب ابلیس نے خدائی حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا، یا اس سے پہلے جنات کو جب زمین پر بھیجا گیا تو انہوں نے زمین پر فساد مچایا۔ اسی طرح یہ بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اللہ کے سپاہیوں نے کبھی باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ اور اپنے عمل کے ذریعے یہ ثابت کر دکھایا کہ فدایانِ اسلام کے سرکٹ تو سکتے ہیں، جھک نہیں سکتے۔
کشمیر سے شیشان اور افغانستان سے عراق تک سجے محاذ ......گوانتا نامو، ابو غریب اور بگرام میں قید ہزاروں مجاہدین ......حرمین اور اقصیٰ کی مقدس سرزمین کو گھیرے ہوئے صلیبی فوجیں ......اللہ کی نصرت کے سہارے ڈٹے ہوئے مٹھی بھر مجاہدین
یہ پوچھ رے ہیں۔ اے دین کے مجاہد! تو کہاں چلا گیا ہے؟
شہید کے مقام کا اس بات سے بخوبی عیاں ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے لیے شہادت کی موت کی تمنّا کی ہے۔ اور بہترین شہادت وہی ہے جس کا جام میدانِ جنگ میں دشمنانِ دین سے بر سرِ پیکار رہتے ہوئے پیا جائے۔ یہی تو وہ واحد ہتھیار ہے جس کا توڑ دشمنانِ دین الٹے لٹک کر بھی پیش نہیں کر سکتے۔
دین کی راہ میں چلنے والوں اور راہِ خدا میں جلنے والوں کا سب سے بڑا سرمایہ ایمان، خشیتِ الہٰی اور رب کی رضا کا حصول ہی ہوتا ہے۔ ان کا فخر صرف اور صرف تہذیبِ اسلامی کی سربلندی اور دنیائے کفر کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ میں ہی ہے۔ اس کے لیے وہ کسی احمق کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔
یہ جان رب کی ہے اور اسے اُسی کی راہ میں کٹانا مؤمن کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔
یہ شہادت کا ہی جذبہ ہے جو مسلم کو پوری دنیا کی اقوام سے ممتاز کرتا ہے۔ یہی جذبہ ہے جو مسلمانوں کے عروج کی ضمانت ہے۔
ثنا خوانانِ تقدیسِ مشرق کو ایک آوازِ مظلومانہ ہے! مشرق کی بیٹی کی عزت و ناموس کے دعوے بجا، حیا کی کلی کی تعریف و ثنا بجا۔ لیکن اک نظر ادھر بھی۔ کہ یہ بھی کسی کی بیٹی، کسی کی ماں اور کسی کی بہن ہے۔ ارے تمہیں یہ مشرق اور اسلام کے ماتھے پر لگا کلنک کا ٹیکہ نظر کیوں نہیں آتا۔ کیا اس وقت کا انتظار ہے جب یہ طوفانِ بے حیائی تمہارے دروازے پر دستک دے گا؟
بے پردگی کا عالم
میں کس طرح بتاؤں
زہریلا سانپ ہے یہ
امّت کو ڈس نہ جائے
ہر سمت دیکھ لو اب طوفانِ بے حیائی
باطل سے ہے محبت اور حق سے بے پراوئی
بہنوں کے مشغلوں سے بھائی بھی بے خبر ہیں
پوچھیں تو کس طرح وہ خود ’’اِدھر اُدھر‘‘ ہیں
بیٹی بھی لاڈلی ہے پردہ کرے کیسے؟
آنگن میں اپنے گھر کے جی کو بھرے تو کیسے؟
یہ آگ ہے مغرب کی
اور کام حماقت کے
لو ہو گئے نمایاں آثار قیامت کے!
انسان ہونا یا انسانیت کا ہونا صرف روح اور بدن کے تعلق پر انحصار نہیں رکھتا۔ روح اور بدن کا رشتہ تو جانوروں میں بھی ہوتا ہے۔ پھر ایک جانور اور انسان کی موت کا اثر ہمارے دل و دماغ پرمختلف اثر کیوں رکھتا ہے؟
یہ صرف اور صرف انسان کا کردار ہی ہوتا ہے جو اسے زندہ رکھتا ہے اور مرنے کے بعد بھی مرنے نہیں دیتا۔ انسان کی شخصیت اور سوچ و افکار لوگوں کے ذہنوں میں صدیوں تک زندہ رہتے ہیں، اور وہ مر کر بھی یہیں کہیں ہمارے قریب ہوتا ہے۔
جوں جوں انسان نے آسائشِ زندگی کے آلات میں ترقی کی، انسانیت کے معیار نے بھی ترقی کی لیکن افسوس کہ یہ ترقی تنزلی کی طرف زیادہ رہی۔ پرانے دور(یعنی پتھر کے دور میں، جہاں جانے سے ہمیں بہت ڈر لگتا ہے) میں انسان اچھے کردار کی وجہ سے یاد رکھے جاتے تھے، اب ترقی ہو گئی ہے ،اب برے کردار کے لوگ یاد رکھے جاتے ہیں۔ خیر اب تو برے اور اچھے کردار کا معیار طے کرنا بھی ہمارے ہاتھ میں نہیں۔۔۔۔۔۔
ایک "اکیلی" کے نام !!
اُس "اکیلی" کے نام .....
جو کبھی فلسطین کے ویراں علاقوں میں ملے
کبھی عراق کے تباہ و برباد شہروں میں........
کبھی گجرات کی خون ریز سڑکوں پر........
کبھی افغانستان کے کہساروں میں ........
کبھی کشمیر کی وادیوں میں ........
جس کی چیخیں صدا بصحرا ہیں!
کبھی ابو غریب، گونتانامو اور کبھی شبر غان جیل میں ........
جو کبھی عافیہ کے روپ میں ........
کبھی فاطمہ کے روپ میں ........
کبھی بناتِ حفصہ کے روپ میں ........
کبھی مروا الشربینی کے روپ میں ........
پکارتی ہے، راہ تکتی ہے
اُس کی جو گھر میں پڑا سو رہا ہے
یا
حالِ امّت پہ صرف رو رہا ہے
جسے ابنِ قاسم بننا ہے ........
................................................................................
’’اکیلی‘‘
شاعر : بلراج کومل
اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
جانتی ہوں تمہارے لئے غیر ہوں
پھر بھی ٹھہرو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں
آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
میری امی نہیں
میرے ابا نہیں
میری آپا نہیں
میرے ننھے سے معصوم بھیا نہیں
میری عصمت کی مغرور کرنیں نہیں
وہ گھروندہ نہیں جس کے سائے تلے
لوریوں کے ترنم کو سنتی رہی
پھول چنتی رہی
گیت گاتی رہی
مسکراتی رہی
آج کچھ بھی نہیں
میری نظروں کے سہمے ہوئے آئینے
میری امی کے ، میرے ابا کے ، آپا کے
اور میرے ننھے سے معصوم بھیا کے خون سے
ہیں دہشت زدہ
آج میری نگاہوں کی ویرانیاں
چند مجروح یادوں سے آباد ہیں
آج میری امنگوں کے سوکھے کنول
میرے اشکوں کے پانی سے شاداب ہیں
آج میری تڑپتی ہوئی سسکیاں
اک سازِ شکستہ کی فریاد ہیں
اور کچھ بھی نہیں
بھوک مٹتی نہیں
تن پہ کپڑا نہیں
آس معدوم ہے
آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں
میری امی بنو
میرے ابا بنو
میری آپا بنو
میرے ننھے سے معصوم بھیا بنو
میری عصمت کی مغرور کرنیں بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو !!
جو اس وقت شرق و غرب میں اسلام اور امتِ محمدﷺ کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہی ہیں وہ جنہوں نے کفر کی للکار کا دنداں شکن جواب دیا۔ یا الہٰی ان غازیوں کے حوصلوں کو ہمالہ سے بھی بلند کر کہ اب یہی تو اس امّت کی لاج ہیں۔
ظالموں پر نہ افسوس کوئی کرے
قاتلوں پر نہ آہیں کو ئی بھی بھرے
جن کو مٹی کا پیوند رب نے کیا
جو ہو مومن اُنہیں آج پرسہ نہ دے!
قاتلو!
ہاں تم ہی ہو نا وہ
جس نے برسوں تلک
میرے بغداد اور اُس کے اطراف میں
میری مظلوم امّت کے ایک دو نہیں
پورے دس لاکھ بچّوں کا مسلح کیا
ماؤں کی جھولیوں سے اُنہیں کھینچ کر
بھوک اور مرض کے جال میں بھینچ کر
کند چھریوں سے اُن کو ذبح کر دیا
کافرو!
پھر تم ہی ہو نا وہ
جس نے تیموروکشمیروشیشان میں
جس نے فلپین و صومال و سوڈان میں
میرے ایک ایک قاتل کو پرسہ دیا
نیل کے ساحلوں سے ملایا تلک
ردِّ اسلام کی جو بھی سازش ہوئی
سر پرستی تمہاری ہی اُس میں رہی
اور کسی نے نہیں
میری اقصیٰ کو تاراج تم نے کیا
میرے کعبہ کو گھیرے میں تم نے لیا
وہ جزیرہ عرب کا جہاں پر کبھی
اُترا کرتے تھے جبرئیل لے کر وحی
اُس کی حرمت کو پامال تم نے کیا
سرزمینِ حرم ، وہ دیارِنبیﷺ
جس سے لشکر نکلتے تھے اسلام کے
اپنے ناپاک قدموں سے روندا اُسے
اُس کے پانی پہ خشکی پہ قبضہ کیا
پوری امّت کو نرغے میں ایسے لیا
اُس کے اڈّوں سے اُڑ اُڑ کے چاروں طرف
تم نے ہی ٹام،ہاک اور ڈیزی کٹر
ہم پہ برسائے دن رات شام وسحر
ہم پہ یورانیم کی جو بارش ہوئی
تمہارے ہی دستِ ستم سے گری
یہ تم ہی تھے کہ جن کی ہوَس کی نظر
کتنی معصوم کلیوں کے دامن ہوئے
کتنے سجدہ کُناں تھے کے جن کے بدن
آن کی آن میں چیتھڑے بن گئے
یہ تمہارا ستم در ستم دیکھ کر
چیخنے تک کی نہ تھی اجازت مگر
پھر بھی چُپ سادھ کر
ہم سسکتے،بلکتے،تڑپتے رہے
ہاتھ پر ہاتھ رکھے یوں ہی بے سبب
آسمانی مدد کو ترستے رہے
خود پہ ہنستے رہے
ذلّتوں کا یہ زہرآب پیتے رہے
روز مرتے رہے روز جیتے رہے
اب مگر قاتلو!
انتہا ہو گئی
امن کی لوریاں سن چکے ہم بہت
وہ کہانی گئی
وہ فسانہ گیا
ہر بہانہ گیا
ہاتھ پر ہاتھ رکھے یوں ہی بے سبب
آسماں دیکھنے کا زمانہ گیا ’’وَأَعِدُّوْا۟ لَهُم ‘‘ کی سناء تھام کر ’’تُرْهِبُوْنَ بِہٖ‘‘ کا علم گاڑ کر
دامنِ ہند و کش میں برسوں تلک
ہم نے’’اَلْحَمْدُ ‘‘ سے لے کر ’’وَالنَّاسِ‘‘ تک
جو بھی کچھ ہے پڑھا وہ بھلایا نہیں
ہم پہ روئیں ہماری ہی مائیں سدا
ہم نے تم کو اگر خوں رُلایا نہیں
روند کر اہلِ ایمان کی بستیاں
کیسی جنت بسانے کے خوابوں میں ہو
یہ تو ممکن نہیں عیش سےتم رہو
اور ملت ہماری عذابوں میں ہو
منتظر اب رہو
ہاتھی والو!
زرا آسمانوں سے لکھے نوِشتے پڑھو
بڑھ رہے ہیں تمہارے قلعوں کی طرف
موت کے کچھ بگولے ، کچھ آتش فشاں
جُرأتوں کے دھنی ، امّتوں کے نشاں
کچھ ابابیل ، ایسے شہیدی جواں
لو تباہی کا اپنی تماشا کرو
عمر باقی ہے جو زخم دھوتے رہو
خود پہ روتے رہو!
ظالموں پر نہ افسوس کوئی کرے
قاتلوں پر نہ آہیں کو ئی بھی بھرے
جن کو مٹی کا پیوند رب نے کیا
جو ہو مومن اُنہیں آج پرسہ نہ دے!۔
اے ماہِ رمضان آہستہ چل
ابھی کافی قرض چکانا ہے
’’اللہ‘‘ کو کرنا ہے راضی
اور گناہوں کو بخشوانا ہے
کچھ خواب ہیں جن کو لکھنا ہے
اور تعبیروں کو پانا ہے
کچھ لوگ ہیں اجڑے دل والے
ان دلوں میں پیار بسانا ہے
اور خزاں رسیدہ آنگن میں
خوشیوں کا دیپ جلانا ہے
کچھ توبہ کرنا باقی ہے
اور ’’رب‘‘ کو ہم نے منانا ہے
جنت کا کرنا ہے سودا
اور دوزخ سے خود کو بچانا ہے
اے ماہِ رمضان آہستہ چل
ابھی کافی قرض چکانا ہے
اگر کائنات کی وجہ تخلیق پر غور کیا جائے تو وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ رب ذولجلال نے تمام جن و انس و ملائکہ کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ اور اس کی عبادت کیا ہے؟ اپنی عبدیت(بندگی) کا اظہار اور اللہ رب العزّت کی بڑائی، پاکی اور بزرگی کا بیان۔
اگر ہم قرآن کریم کی پہلی وحی کو اٹھا کر دیکھیں تو جو بات عیاں ہوتی ہے وہ اللہ کی حمد و ثنا ہی ہے۔
ٱقْرَأْ بِٱسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِىْ خَلَقَ ۔
اے نبی ﷺ اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا۔
قرآن کریم کی پہلی سورۃ کا مطالعہ کیا جائے تو وہ سراسر ہے ہی رب کی حمد وثنا۔
اے ربّ ذولجلال تو بہت کریم ہے۔ تو بہت عظیم ہے۔ تیری حمد و ثنا بیان کرنے سے ہم انسان کیا یہ کائنات پوری کی پوری عاجز ہے۔
اگر دنیا کے تمام سمندر سیاہی ہو جائیں اور تمام درخت قلم بن جائیں اور ازل سے ابد تک تیری پاکی و بزرگی لکھتے رہیں تو یہ فانی اشیاء فنا ہو جائیں۔ تیری بزرگی و برتری کا کچھ احاطہ نہ کر سکیں۔
بے شک ہم ہیچ ہیں، ہمارے الفاظ ہیچ ہیں، ہمارے خیالات ہیچ ہیں۔ تو بہت بڑا ہے، تو بہت بڑا ہے، تو بہت بڑا ہے، تو سب سے بڑا ہے۔
ایک خوبصورت شعرجو عملِ پیہم کی راہ دکھلاتا ہے۔ حدیث مبارکہ یا آثارِ صحابہ میں سے ہے کہ ’’جنگ کی تمنا مت کرو، لیکن اگر جنگ ناگزیر ہو جائے تو میدان سے پیٹھ مت پھیرو‘‘۔
اردو شاعری کو پوری دنیا کی شاعری میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اور اگر شاعری با مقصد بھی ہو، یعنی پڑھنے اور سننے والے کو ایک اعلیٰ مقصد سے بھی روشناس کرائے تو کیا ہی کہنے۔۔۔۔
اردو شاعری میں مجھے اسلامی شاعری سب سے زیادہ پسند ہے اور پھر اسلامی شاعری میں حمد و نعت کے بعد جو قسم میرے دل کے تار چھیڑتی ہے وہ رزمیہ شاعری ہے۔
اس بلاگ پر اردو زبان میں موجود اسلامی شاعری (آواز اور کلام ) کا اشتراک کیا جائے گا۔ شاعری کی تمام اقسام حمد و نعت، منقبت، قصیدہ اور رزمیہ اشعار شامل ہوں گے۔انشاءاللہ