Tuesday, November 29, 2011

عظیم ہو تم، عظیم ہو تم! صلیب پر مسکرانے والو

عظیم ہو تم، عظیم ہو تم 
صلیب پر مسکرانے والو! 
لہو کے قطروں کے بیج بو کر 
ہزار گلشن سجانے والو! 
اجل کی وادی میں راہیوں کو
بقا کی راہیں دکھانے والو!
خدا کا پیغام دینے والو
خودی کا بادہ لنڈھانے والو!
خوشی خوشی سب سے آگے آگے
لپک کے مشہد کو جانے والو! 
تمام جھوٹی خدائیوں کے
صنم کدوں کو گرانے والو!
تمہاری یادیں بسی ہیں دل میں
افق کے اُس پار جانے والو!

Tuesday, November 15, 2011

صحابہؓ کے غلاموں کی عبادت اور ہوتی ہے

صحابہؓ کے غلاموں کی عبادت اور ہوتی ہے
یہ سجدے اور ہوتے ہیں اقامت اور ہوتی ہے
عمرؓ کے دشمنوں کو اور عمرؓ کو اس طرح سمجھو
نجاست اور ہوتی ہے طہارت اور ہوتی ہے
کہاں اصحاب کے دشمن، کہاں رسول ﷺ کے اصحاب
نحوست اور ہوتی ہے، کرامت اور ہوتی ہے
ماتمیوں کو عاشقوں سے کیوں منسوب کرتے ہو
ہلاکت اور ہوتی ہے، شہادت اور ہوتی ہے

Wednesday, November 09, 2011

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

تقدیر امم ہو کہ تقدیر شاہی..... قصہ تمام  طاؤس و رباب اور مے سے ہی ہوتا ہے۔ فقط احوالِ محبت ہی ہیں جن کے اوّل و آخر عاشقانِ راہِ حق پر یکساں گزرتے ہیں۔ اور اگر یوں کہا جائے کہ احوالِ محبت میں آخر یا انتہا آتی ہی نہیں تو بھی غلط نہ ہوگا۔
.............................................................................................
.............................................................................................
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر 
کرتے ہیں خطاب آخر ، اٹھتے ہیں حجاب آخر 
احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا 
سوز و تب و تاب اول ، سوزو تب و تاب آخر 
میں تجھ کو بتاتا ہوں ، تقدیر امم کیا ہے 
شمشیر و سناں اول ، طاؤس و رباب آخر 
میخانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں 
لاتے ہیں سرور اول ، دیتے ہیں  شراب آخر 
کیا دبدبہ نادر ، کیا شوکت تیموری 
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق مے ناب آخر 
خلوت کی گھڑی گزری ، جلوت کی گھڑی آئی 
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر 
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا 
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
علامہ محمد اقبالؒ

Wednesday, October 26, 2011

ہر حسین حسنِ محمدﷺ سے ہے خیرات کا طالب

کوئی لمحہ بھی ترے ذکر سے خالی نہ ہوا   
میں ترے بعد کسی در کا سوالی نہ ہوا  
تو ہے یثرب کو مدینے میں بدلنے والا 
ترے جیسا کسی شہر کا والی نہ ہوا 
ہر حسین حسنِ محمدﷺ سے ہے خیرات کا طالب  
کوئی چہرہ بھی تیرے جیسا جمالی نہ ہوا  
کوئی پیدا نہ ہوا تیرے مؤذن جیسا
پھر آذانوں میں کبھی سوزِ ’’بلالیؓ‘‘ نہ ہوا
میں نے ہر دور کی تاریخ میں جھانکا لیکن
کوئی انسان میرے آقاﷺ سا مثالی نہ ہوا

Wednesday, October 12, 2011

جو ملے حیات خضر مجھے اور اسے میں صرف ثنا کروں

جو ملے حیات خضر مجھے اور اسے میں صرف ثنا کروں 
تیرا شکر پھر بھی ادا نہ ہو تیرا شکر کیسے ادا کروں 
تیرے لطف کی کوئی حد نہیں گنوں کس طرح کہ عدد نہیں 
نہیں کوئی تیرے سوا میرا کسے یاد تیرے سوا کروں 
تیرے در پہ خم رہے سر میرا تیری رحمتوں پہ گزر میرا 
میں کہا کروں تو سنا کرے تو دیا کرے میں لیا کروں  
مجھے خوشبوؤں کی کلاہ دے مجھے روشنی سی نگاہ دے
کبھی پھول بن کے مہک اٹھوں کبھی شمع بن کے جلا کروں
میں بہت ہی عاجز و بے نوا تیرے آگے میری بساط کیا
کوئی بھول ہو تو معاف کر مجھے بخش دے جو خطا کروں
میرے ایک دامنِ عمر میں ہیں نجانے کتنی ندامتیں
میرا خاتمہ بھی بخیر ہو یہی رات دن میں دعا کروں
مظفر وارثی

ہم جنگ یہ جاری رکھیں گے، کفار کو ہم للکاریں گے


یہ جنگ جو ہلال اور صلیب کے درمیان جاری ہے، ایک پرانا تسلسل ہے اور مسلمانوں کے زوال کے بعد بھی کفار اپنے پرانے زخم بھولے نہیں.....جو انہیں مسلمانوں نے عمرؓ، علیؓ، امیر معاویہؓ، خالدؓ، ابو عبیدہؓ، ضرارؓ، سعدؓ بن ابی وقاص اور زنگیؒ و ایوبیؒ کی شکل میں دیے تھے.....  بلکہ مسلمانوں کو کمزور دیکھ کر ان کی زبانیں و کمانیں اور باہر کو نکل آئیں۔ تو اب منتظر رہیں اپنے آباء کی طرح کٹنے، پٹنے اور مرنے کوکہ ایوبیؒ کے روحانی فرزندوں نے ان کے لیے تباہی کا سامان کر رکھا ہے۔
.............................................................................................
آواز: عبد الطیف الحصیری

4Shared Download Link
.............................................................................................
ہم جنگ یہ جاری رکھیں گے
کفار کو ہم للکاریں گے
ہم لے کے رہیں گے حق اپنا
دنیا کو بتا کر دم لیں گے
چن چن کے نشانہ لیں گے
شعلے بن کر آئیں گے ہم
اس ظلم و ستم کی دنیامیں
عدل و انصاف کریں گے ہم
بن جائیں گے ہم پھر ایوبیؒ
باطل پہ گرائیں گے بجلی
ہم بدلہ لیں گے اقصیٰ کا
مثلِ خالدؓ و ضرارؓ و علیؓ
ہر ظالم سے ٹکرائیں گے
ہم اپنا حق لوٹائیں گے
ہر ٹکڑائے ارضِ اسلامی
آزاد کرا کر دم لیں گے
یہ جنگ رہے گی اب جاری
یہ ضرب لگے گی اب کاری
ہر رنگ کا باطل ٹوٹے گا
دیکھی گی یہ دنیا ساری
یہ گلشن پھر چہکے گا
یہ پھول صدا پھر مہکے گا
اک دور چمن پر آئے گا
اسلام کا چہرا چمکے گا

Sunday, October 09, 2011

ہم دینِ محمدﷺ کے وفادار سپاہی، اللہ کے انصار مددگار سپاہی

حق و باطل کی صفوں کا فرق روزِ ازل سے ہی واضح ہے۔ جب ابلیس نے خدائی حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا، یا اس سے پہلے جنات کو جب زمین پر بھیجا گیا تو انہوں نے زمین پر فساد مچایا۔ اسی طرح یہ بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اللہ کے سپاہیوں نے کبھی باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ اور اپنے عمل کے ذریعے یہ ثابت کر دکھایا کہ فدایانِ اسلام کے سرکٹ تو سکتے ہیں، جھک نہیں سکتے۔
.............................................................................................


4Shared Download Link
.............................................................................................

.............................................................................................

ہم دینِ محمدﷺ کے وفادار سپاہی
اللہ کے انصار مددگار سپاہی
اسلام کی عظمت کے نگہدار سپاہی
باطل کی خدائی کو گوارا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
انصاف سے پھر آدمی منہ موڑ چکا ہے
سچائی سے پیمانِ وفا توڑ چکا ہے
دامانِ یقیں صبر و رضا چھوڑ چکا ہے
ہم زندہ رہ و رسم کا پیمانہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
سینےسے ہر اک نقشِ کدورت کو مٹا کر
تفریق کے بھڑکے ہوئے شعلوں کو بجھا کر
دم لیں گے ہم انسان کو انساں سے ملا کر
آباد پھر اجڑا ہواکاشانہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
خوشنودیٔ رب مقصد ہستی ہے ہمارا
قرآن ہی دستورِ اساسی ہے ہمارا
قائد بھی محمدﷺ سا مثالی ہے ہمارا
اب ہم کسی رہبر کی تمنا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
دشمن سے تیرے ہم کوئی پیماں نہ کریں گے
جینے کے لئے موت کا ساماں نہ کریں گے
رسوائیٔ ملت پہ چراغاں نہ کریں گے
ایسا نہ کریں گے کبھی ایسا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
اقرار ہمارا ہے زمانے کی نظر میں
انکار ہمارا ہے زمانے کی نظر میں
کردار ہمارا ہے زمانے کی نظر میں
ہم اپنی ہی تصویر کو رسوا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
پیغامِ سکوں راحت جاں لے کے اٹھے ہیں
اک سوز یقیں عزمِ جواں لے کے اٹھے ہیں
ہم جذبۂ تعمیرِ جہاں لے کے اٹھے ہیں
سنگینیٔ حالات کی پرواہ نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
اک موسم گل رنگِ بہاراں ہے نظر میں
اک نورِ سحر جلوۂ تاباں ہے نظر میں
تاریخ کا اک عہد درخشاں ہے نظر میں
ہم سنگ ِ درِ وقت پہ سجدہ نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
صدیقؓ کا دل، زورِ علیؓ بخش دے یا رب
فیاضیٔ عثمان غنیؓ بخش دے یا رب
فاروقؓ کی عالی نگہی بخش دے یا رب
آراستہ پھر محفلِ جانا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
عزیز بگھرویؔ

سنا تھا ہم نے لوگوں سے محبت چیز ایسی ہے

دلیلِ محبت؟
سنا تھا ہم نے لوگوں سے
محبت چیز ایسی ہے
چھپائے چھپ نہیں سکتی!
یہ آنکھوں میں چمکتی ہے
یہ چہروں پر دمکتی ہے
یہ لہجوں میں جھلکتی ہے
دلوں تک کو گھلاتی ہے
لہو ایندھن بناتی ہے
اگر سچ ہے  .....تو پھر آخر ہمیں
اُس ذاتِ حق سے یہ بھلا کیسی محبت ہے؟
نہ آنکھوں سے چھلکتی ہے
نہ چہروں پر ٹپکتی ہے
نہ لہجوں میں سلگتی ہے
دلوں کو آزماتی ہے نہ راتوں کو رُلاتی ہے
کلیجے منہ کو لاتی ہے نہ فاقوں ہی ستاتی ہے
نہ خاک آلود کرتی اور نہ کانٹوں پر چلاتی ہے
نہ یہ مجنوں بناتی ہے
عجب! ..... ایسی محبت ہے
(فقط دعویٰ سجھاتی ہے)
نہ کعبے کی گلی میں تن پہ انگارے بجھاتی ہے
نہ غارِ ثور میں چپکے سکینت بن کے چھاتی ہے
حرا تک لے بھی جائے، قُدس سے نظریں چراتی ہے!
ہم اپنے دعویٰٔ حقِ محبت پر ہوئے نادم
تو پلکوں کے کناروں سے جھڑی سی لگ گئی اور پھر
کہیں سے بجلیاں کوندیں
صدا آئی .........
ذرا اس آنکھ کی بندش کے دم بھر منتظر رہنا
وہاں خود جان جاؤ گے
محبت کی حقیقت کو!
شاعر: احسن عزیز

Friday, October 07, 2011

کہ مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ

نہیں ہوتی ساحل کے ارمانوں سے وابستہ 
ہماری کشتیاں رہتی ہیں طوفانوں سے وابستہ 
یہ ہمارا ہی جگر ہے یہ ہمارا کلیجہ ہے 
زخم دُکھتے ہیں اور ہم اپنے نمک دانوں سے وابستہ 
اے شیخ حرم نہ لے چل ہم کو خانقاہوں کی طرف 
کہ مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ 

اے دین کے مجاہد تُو کہاں چلا گیا ہے

 کشمیر سے شیشان اور افغانستان سے عراق تک سجے محاذ ......گوانتا نامو، ابو غریب اور بگرام میں قید ہزاروں مجاہدین ......حرمین اور اقصیٰ کی مقدس سرزمین کو گھیرے ہوئے صلیبی فوجیں ......اللہ کی نصرت کے سہارے ڈٹے ہوئے مٹھی بھر مجاہدین 
یہ پوچھ رے ہیں۔ اے دین کے مجاہد! تو کہاں چلا گیا ہے؟
.............................................................................................


4Shared Download Link
.............................................................................................

اے دین کے مجاہد تُو کہاں چلا گیا ہے
یہ جہاد کی فضائیں تجھے یاد کر رہی ہیں
اپنوں کے خُوں میں ڈوبی کشمیر کی وہ گلیاں
جلتا ہوا فلسطین، روتا ہوا وہ شیشان
کچھ ہوش کر مسلمان! حرمین کی صدا ہے
یہ جہاد کی فضائیں تجھے یاد کر رہی ہیں
بہنوں کی عصمتوں کی دھجیاں اڑائی جائیں
وہ بیٹیوںکے سر سے چھنتی ہوئی رِدائیں
یہ دیکھ کر بھی غفلت کی نیند سو رہا ہے
یہ جہاد کی فضائیں تجھے یاد کر رہی ہیں
یہ مصطفیٰ کی امت کب سے سسک رہی ہے
کیا غیرتِ مسلماں ناپید ہو گئی ہے
ہر سمت خونِ مسلم یہ تجھ سے پوچھتا ہے
یہ جہاد کی فضائیں تجھے یاد کر رہی ہیں
محشر کے روز رب کو تم کیا جواب دوگے
اُن بھائیوں کے خون کا کیسے حساب دو گے
اللہ کے نبی کی، قرآن کی صدا ہے
یہ جہاد کی فضائیں تجھے یاد کر رہی ہیں
اے دین کے مجاہد تُو کہاں چلا گیا ہے
یہ جہاد کی فضائیں تجھے یاد کر رہی ہیں

Thursday, October 06, 2011

نگاہوں میں میری سما میرے مولیٰ



نگاہوں میں میری سما میرے مولیٰ
مجھے اپنا جلوہ دکھا میرے مولیٰ
کیا میں نے اغیار سے دل کو خالی
مرے خانہ ٔ دل میں آ میرے مولیٰ
ملا جب سے مجھ کو ترا عشقِ خوش تر
ہٹے وادیٔ عقلِ ناقص کے پتھر
مرا ہر بُنِ موُ ہوا رشکِ شکر
ترا نام جب بھی لیا میرے مولیٰ
جسے  میں نے پرکھا جدھر میں نے دیکھا
تجھے ہر جگہ جگ میں نے موجود پایا
تو ہر چیز میں ہے نہاں میرے مالک
تو ہر شے میں جلوہ نما میرے مولیٰ
مری آرزو، خواہشیں،مرے ارماں
مری ہرخوشی تیری خوشیوں پہ قرباں
مرے رب، مرے داتا،ملجاوماویٰ
مرے شاہ میرے خدا میرے مولیٰ
مجھے چاہیے صرف تیری توجُّہ
نہیں غیر سے مجھ کو کوئی توقع
تجھ ہی سے میں فریاد کرتا ہوں مالک
تُو ہی ہے مرا آسرا میرے مولیٰ
کوئی تجھ سے بڑھ کر پیارا نہیں ہے
بجزتیرے کوئی سہارا نہیں ہے
مجھے اب جدائی کا یارا نہیں ہے
نہ دے فرقتوں کی سزا میرے مولیٰ
یہ مانا کہ بندہ یہ عاصی بڑا ہے
مگر تیری رحمت سے پالا پڑا ہے
ترے عشق کا اک سوالی کھڑا ہے
شرابِ محبت پلا میرے مولیٰ
میں کب تک نہیں آؤں گا روشنی میں
میں بھٹکوں گا کب تک شبِ تیرگی میں
حقائق کی دنیا دکھا میرے مولیٰ
نگاہوں سے پردہ اٹھا میرے مولیٰ
حسینوں میں چین و سکوں غیر ممکن
توہی خالقِ حسن ہے میرے محسن
 ہے دنیائے فانی تو ہرجائی لیکن
تیری ذات ہے باوفا میرے مولیٰ

Thursday, September 15, 2011

شہید کا ہے مقام کیسا؟ افق کے اُس پار جا کے دیکھو

شہید کے مقام کا اس بات سے بخوبی عیاں ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے لیے شہادت کی موت کی تمنّا کی ہے۔ اور بہترین شہادت وہی ہے جس کا جام میدانِ جنگ میں دشمنانِ دین سے بر سرِ پیکار رہتے ہوئے پیا جائے۔ یہی تو وہ واحد ہتھیار ہے جس کا توڑ دشمنانِ دین الٹے لٹک کر بھی پیش نہیں کر سکتے۔
.............................................................................................

آواز: غازی عبد الرشیدؒ

.............................................................................................

آواز: ابو جندل.....البم: تخیل


4Shared Download Link
.............................................................................................


شہید کا ہے مقام کیسا؟ افق کے اُس پار جا کے دیکھو
حیاتِ تازہ کیا مزے ہیں ؟ذرا یہ گردن کٹا کے دیکھو
یہ حسنِ فانی کی کیا طلب ہے؟خدا کے عاشق بنو تو تب ہے
گلاب بن کے مہک اٹھیں گے، جگر پہ یہ زخم کھا کے دیکھو
کسی کے دل پہ گمان نہیں، نا خبر  ذراچشم و گوش کو ہے
شہید پر جو عنایتیں ہیں،کتاب و سنت کو اُٹھا کے دیکھو
نکھرتا جائے گا تن بدن اور جمال آئے گا خال و خط پہ
بڑھے گا حسن و جمال کتنا؟ ذرا لہو میں نہا کے دیکھو
وہ باغِ جنت کی نازنیں، جو تمہاری دلہن بنی کھڑی ہیں
تمہی تو دلہا ہو ،دیر کیسی؟ یہ سرخ مہندی لگا کے دیکھو
نہیں ناداں کو کچھ خبر یہ شعور والے ہی جانتے ہیں
 خدا کی جو میزبانیاں ہیں،وفا کی رسمیں نبھا کے دیکھو
غرور تم کو نہیں ہے زیبا، اسے نہ اوڑھو خدا کا حق ہے
ملیں گے عظمت کے تاج کیا کیا؟ ذرا سا خودکو مٹا کے دیکھو
یہ تیرو تلوار اور خنجر، تمہارے زیور ہیں اے جوانو!
حسین لگتے ہو کس قدرتم، یہ اسلحہ تو سجا کے دیکھو

Wednesday, September 07, 2011

اپنے ایمان کی آبیاری کریں، دل پہ اللہ کا خوف طاری کریں

دین کی راہ میں چلنے والوں اور راہِ خدا میں جلنے والوں کا سب سے بڑا سرمایہ ایمان، خشیتِ الہٰی اور رب کی رضا کا حصول   ہی ہوتا ہے۔ ان کا فخر صرف اور صرف تہذیبِ اسلامی کی سربلندی اور دنیائے کفر کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ میں ہی ہے۔ اس کے لیے وہ کسی احمق کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے۔




اپنے ایمان کی آبیاری کریں، دل پہ اللہ کا خوف طاری کریں 
صبح شام اس کے اذکار کا ورد ہو اور دروسِ نبی لب پہ جاری کریں 
تاکہ جب اس کے دربار میں جائیں ہم
دل میں کچھ خوف ہو اور نہ آنکھیں ہوں نم
شوقِ جنت نہ منزل سے پہلے ہو کم
اور سبیلِ ہدیٰ سے ہٹیں نہ قدم
اپنی محرومیوں کا ازالہ کریں
دین کے چاند کا خود کو ہالہ کریں
ہم کو تہذیبِ اسلام پر فخر ہو
احمقوں کی ملامت سے کیوں ہم ڈریں
دل کی آنکھوں سے قرآن پڑھتے چلیں
آؤ جنت کے زینے پہ چڑھتے چلیں
مل کے جیشِ صلیبی سے لڑتے چلیں
اپنی ملت کے زخموں کو بھرتے چلیں
میری ملت کو مل جائیں ایسے جواں
جن کے ہر گھات پر ہو نشانِ اٹل
پھر سے اسلاف کی یاد تازہ کریں
آنچ آنے نہ دیں، دین پر کٹ مریں
یوں توکل کی پتوار کو تھام لیں
بادبانِ شجاعت کو اونچا کریں
سجدۂ شکر ساحل پہ پہنچیں کریں
صورتِ دیگراں راہ میں کٹ مریں
ہم اخوت کا اک نغمۂ جان فزا
جان و تن ان کی خاطر نہ ہو کیوں فدا
وہ جو ہجرت کی راہوں میں مارے گئے
جن سے وعدہ ہے مر کر بھی جو نہ مریں

Tuesday, September 06, 2011

میں تیری راہ میں گردن کٹا کے آیا ہوں

 یہ جان رب کی ہے اور اسے اُسی کی راہ میں کٹانا مؤمن کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔
یہ شہادت کا ہی جذبہ ہے جو مسلم کو پوری دنیا کی اقوام سے ممتاز کرتا ہے۔ یہی جذبہ ہے جو مسلمانوں کے عروج کی ضمانت ہے۔
--------------------------------------------
آواز: محمد بن عابد




جگر کی پیاس لہو سے بجھا کے آیاہوں
میں تیری راہ میں گردن کٹا کے آیا ہوں
جو تیرے وصل میں حائل تھے جیتے جی یا رب
تمام راہ کےپتھر ہٹا کے آیاہوں
تمام حور و ملائک ہیں محوِ استقبال
میں سر پہ تاجِ شہادت سجا کے آیا ہوں
مجھے نہ غسل دو پہنچاؤ، تحتہ الانھار
میں اپنے خون سے خود ہی نہا کے آیا ہوں
مجھے بھی چاہتے تھے امی ،ابو، بھائی، بہن
میں سب کو خون کے آنسو رُلا کے آیا ہوں
مجھے تو مدتوں رویا کریں گے اہلِ جہاں
زہے نصیب کہ میں مسکرا کے آیا ہوں

ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟

 ثنا خوانانِ تقدیسِ مشرق کو ایک آوازِ مظلومانہ ہے! مشرق کی بیٹی کی عزت و ناموس کے دعوے بجا، حیا کی کلی کی تعریف و ثنا بجا۔ لیکن اک نظر ادھر بھی۔ کہ یہ بھی کسی کی بیٹی، کسی کی ماں اور کسی کی بہن ہے۔ ارے تمہیں یہ مشرق اور اسلام کے ماتھے پر لگا کلنک کا ٹیکہ نظر کیوں نہیں آتا۔ کیا اس وقت کا انتظار ہے جب یہ طوفانِ بے حیائی تمہارے دروازے پر دستک دے گا؟
--------------------------------------------
شاعر: ساحر لدھیانوی
یہ کوچے یہ نیلام گھر دلکشی کے
یہ لٹتے ہوئے کارواں زندگی کے
کہاں ہیں کہاں ہیں محافظ خودی کے
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
یہ پر پیج گلیاں یہ بے خواب بازار
یہ گمنام راہی یہ سِکّوں کی جھنکار
یہ عصمت کے سودے یہ سودوں پہ تکرار
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
تعفّن سے پر نیم روشن یہ گلیاں
یہ مسلی ہوئی ادھ کھلی زرد کلیاں
یہ بکتی ہوئی کھوکلی رنگ رلیاں
ثنا خوانِ تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
وہ اجلے دریچوں میں پائل کی چھن چھن
تنفس کی الجھن پہ طبلے کی دھن دھن
یہ بے روح کمروں میں کھانسی کی ٹھن ٹھن
ثنا خوان تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
یہ گونچے ہوئے قہقہے راستوں پر
یہ چاروں طرف بھیڑ سی کھڑکیوں پر
یہ آواز کھنچتے ہوئے آنچلوں پر
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
یہ پھولوں کے گجرے یہ پیکوں کے چھینٹے
یہ بے باک نظریں یہ گستاخ فقرے
یہ ڈھلکے بدن اور یہ مدقوق چہرے
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
یہ بھوکی نگاہیں حسینوں کی جانب
یہ بڑھتے ہوئے ہاتھ سینوں کی جانب
لپکتے ہوئے پاؤں زینوں کی جانب
ثنا خوان تقدیس مشرق کہاں ہیں
یہاں پیر بھی آچکے ہیں جواں بھی
تنو مند بیٹے بھی، ابا میاں بھی
یہ بیوی بھی ہے اور بہن بھی ہے ماں بھی
ثنا خوان تقدیسِ مشرق کہاں ہیں؟
مدد چاہتی ہے یہ حوّا کی بیٹی
شودھا کی ہم جنس رادھا کی بیٹی
پیمبر کی امت، زلیخا کی بیٹی
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟
بلاؤ خدایانِ دین کو بلاؤ
یہ کوچے، یہ گلیاں، یہ منظر دکھاؤ
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کو لاؤ
ثنا خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں؟

Monday, September 05, 2011

بے پردگی کا عالم

بے پردگی کا عالم
میں کس طرح بتاؤں
زہریلا سانپ ہے یہ
امّت کو ڈس نہ جائے
ہر سمت دیکھ لو اب طوفانِ بے حیائی
باطل سے ہے محبت اور حق سے بے پراوئی
بہنوں کے مشغلوں سے بھائی بھی بے خبر ہیں
پوچھیں تو کس طرح وہ خود ’’اِدھر اُدھر‘‘ ہیں
بیٹی بھی لاڈلی ہے پردہ کرے کیسے؟
آنگن میں اپنے گھر کے جی کو بھرے تو کیسے؟
یہ آگ ہے مغرب کی
اور کام حماقت کے
لو ہو گئے نمایاں آثار قیامت کے!

Sunday, September 04, 2011

اے لاالہٰ کے وارث



اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ! 
ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ 
تعمیر آشیاں سے میں نے یہ راز پایا 
اہل نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ 
یہ بندگی خدائی، وہ بندگی گدائی 
یا بندۂ خدا بن یا بندۂ زمانہ! 
غافل نہ ہو خودی سے، کر اپنی پاسبانی
شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ
اے لَا اِلٰہ کے وارث! باقی نہیں ہے تجھ میں
گفتار دلبرانہ، کردار قاہرانہ
تیری نگاہ سے دل سینوں میں کانپتے تھے
کھویا گیا ہے تیرا جذب قلندرانہ
راز حرم سے شاید اقبال باخبر ہے
ہیں اس کی گفتگو کے انداز محرمانہ

علامہ محمد اقبالؒ

Thursday, September 01, 2011

تو کیوں ماتم نہیں ہوتا؟

انسان ہونا یا انسانیت کا ہونا صرف روح اور بدن کے تعلق پر انحصار نہیں رکھتا۔ روح اور بدن کا رشتہ تو جانوروں میں بھی ہوتا ہے۔ پھر ایک جانور اور انسان کی موت کا اثر ہمارے دل و دماغ پرمختلف اثر کیوں رکھتا ہے؟
یہ صرف اور صرف انسان کا کردار ہی ہوتا ہے جو اسے زندہ رکھتا ہے اور مرنے کے بعد بھی مرنے نہیں دیتا۔  انسان کی شخصیت اور سوچ و افکار لوگوں کے ذہنوں میں صدیوں تک زندہ رہتے ہیں، اور وہ مر کر بھی یہیں کہیں ہمارے قریب ہوتا ہے۔
جوں جوں انسان نے آسائشِ زندگی کے آلات میں ترقی کی، انسانیت کے معیار نے بھی ترقی کی لیکن افسوس کہ یہ ترقی تنزلی کی طرف زیادہ رہی۔ پرانے دور(یعنی پتھر کے دور میں، جہاں جانے سے ہمیں بہت ڈر لگتا ہے) میں انسان اچھے کردار کی وجہ سے یاد رکھے جاتے تھے، اب ترقی ہو گئی ہے ،اب برے کردار کے لوگ یاد رکھے جاتے ہیں۔ خیر اب تو برے اور اچھے کردار کا معیار طے کرنا بھی ہمارے ہاتھ میں نہیں۔۔۔۔۔۔

بدن سے روح جاتی ہے تو بچھتی ہے صفِ ماتم
مگر کردار مر جائے تو کیوں ماتم نہیں ہوتا؟

Tuesday, August 30, 2011

اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا!

ایک "اکیلی" کے نام !!
اُس "اکیلی" کے نام .....
 جو کبھی فلسطین کے ویراں علاقوں میں ملے
کبھی عراق کے تباہ و برباد شہروں میں........
کبھی گجرات کی خون ریز سڑکوں پر........
کبھی افغانستان کے کہساروں میں ........
کبھی کشمیر کی وادیوں میں ........
جس کی چیخیں صدا بصحرا ہیں!
کبھی ابو غریب، گونتانامو اور کبھی شبر غان جیل میں ........
جو کبھی عافیہ کے روپ میں ........
کبھی فاطمہ کے روپ میں ........
کبھی بناتِ حفصہ کے روپ میں ........
کبھی مروا الشربینی کے روپ میں ........
پکارتی ہے، راہ تکتی ہے
اُس کی جو گھر میں پڑا سو رہا ہے
یا
حالِ امّت پہ صرف رو رہا ہے
جسے ابنِ قاسم بننا ہے ........
................................................................................

’’اکیلی‘‘
شاعر : بلراج کومل
اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
جانتی ہوں تمہارے لئے غیر ہوں
پھر بھی ٹھہرو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں

آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
میری امی نہیں
میرے ابا نہیں
میری آپا نہیں
میرے ننھے سے معصوم بھیا نہیں
میری عصمت کی مغرور کرنیں نہیں
وہ گھروندہ نہیں جس کے سائے تلے
لوریوں کے ترنم کو سنتی رہی
پھول چنتی رہی
گیت گاتی رہی
مسکراتی رہی
آج کچھ بھی نہیں

میری نظروں کے سہمے ہوئے آئینے
میری امی کے ، میرے ابا کے ، آپا کے
اور میرے ننھے سے معصوم بھیا کے خون سے
ہیں دہشت زدہ
آج میری نگاہوں کی ویرانیاں
چند مجروح یادوں سے آباد ہیں
آج میری امنگوں کے سوکھے کنول
میرے اشکوں کے پانی سے شاداب ہیں
آج میری تڑپتی ہوئی سسکیاں
اک سازِ شکستہ کی فریاد ہیں
اور کچھ بھی نہیں
بھوک مٹتی نہیں
تن پہ کپڑا نہیں
آس معدوم ہے

آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں

میری امی بنو
میرے ابا بنو
میری آپا بنو
میرے ننھے سے معصوم بھیا بنو
میری عصمت کی مغرور کرنیں بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو !!

بشکریہ: بلاگ .....تلاش میں ہے زندگی
کچھ ترامیم کے ساتھ

محمدﷺکی غلامی کا گلے میں طوق پہنا ہے

کہیں بھی ظلم کی تلوار سے ہرگز نہیں ڈرتے
کسی طاغوت کی چوکھٹ پہ اپنے سر نہیں جھکتے
 محمدﷺکی غلامی کا گلے میں طوق پہنا ہے
’’ھو اللہ احد‘‘اب چڑھ کے سولی پر بھی کہنا ہے
ہم ہی للکارِ قاسمؒ ہیں، ہم ہی شمشیر حیدرؓ ہیں
ہم ہی دشمن کے سینے میں کھبُا اک تیز خنجر ہیں
جلا دی ہم نے ساحل پر ہی اپنی کشتیاں ساری
کہ یہ سب کچھ نہیں، اس راہ میں ہو جان بھی واری
زبان اُگلے گی حق کی بات ہی چاہے وہ کٹ جائے
یہاں تک کہ عدُوِ دین خود رستے سے ہٹ جائے
یہ سینے صورتِ فولاد ڈٹ جاتے ہیں میدان میں
خدا کہتا ہے خود بُنیَانٍ مرصُوص ان کو قرآن میں
ہزاروں بند باندھو، ہم وہ طوفاں جو نہیں تھمتے
طلب منزل کی سچی ہو تو رستے میں نہیں جمتے
بھروسہ ہے ہمیں اللہ کی تائیدو نصرت پر
غلامانِ محمدﷺ تو ہتھیلی پر لیے ہیں سر
ہمیں دنیا سے کیا مطلب، ہم اس سے کچھ نہ لیتے ہیں
کہ ہم جنّت کے بدلے اپنی جاں کو بیچ دیتے ہیں
عدُو پر بپھرے شیروں کی طرح سے ہم جھپٹتے ہیں
پلٹتے ہیں، جھپٹتے ہیں، جھپٹ کر پھر پلٹتے ہیں

سوچو ذرا کیا پایا ہم نے؟

خلقتِ خدا اب رونے کو ہے
ماہِ رمضان بھی جدا ہونے کو ہے
سوچو ذرا کیا پایا ہم نے؟
کیا جانے اب نصیبوں میں یہ ماہ ہو نہ ہو
اُس کی رحمت کا کیا حق نبھایا ہم نے؟
اب بھی وقت ہے منا لو اپنے رب کو
کہ بابِ مغفرت ہاتھ سے جانے کو ہے

اے حرم تیرے بیٹے سلامت رہیں، تاقیامت رہیں

حرم کے بیٹوں کے نام!
جو اس وقت شرق و غرب میں اسلام اور امتِ محمدﷺ کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہی ہیں وہ جنہوں نے کفر کی للکار کا دنداں شکن جواب دیا۔ یا الہٰی ان غازیوں کے حوصلوں کو ہمالہ سے بھی بلند کر کہ اب یہی تو اس امّت کی لاج ہیں۔
.............................................................................................

4Shared Download Link
.............................................................................................
آواز: ابو جندل......البم: تخیل

4Shared Download Link
.............................................................................................
شاعر: احسن عزیز
اے حرم تیرے بیٹے سلامت رہیں
تاقیامت رہیں
تیرے غازی مجاہد تیرے جانثار
ان پہ رب کی عنایت رہے بے شمار
کوئی مشرق کی وادی میں لڑتا رہے
کو ئی مغرب میں بجلی کی صورت گرے
ان کے صبحیں سداباسعادت رہیں
ان کی شامیں رہینِ عبادت رہیں
یہ فلسطین کے پاسباں بن گئے
فخرِ کعبہ بلالی آذاں بن گئے
ان کی ہر چال دشمن پہ بھاری رہی
بحروبر میں بھی جنگ ان کی جاری رہی
ان کو حکمت کے گوہر ودیعت رہیں
ان کے سب کام تحتِ شریعت رہیں
یہ قدامت پسندی کی معراج ہیں
ولولے کے ان کے سینوں میں جو آج ہیں
ان کی ٹھوکر میں افرنگ کے تاج ہیں
میری امّت کے یہ نوجواں لاج ہیں
یہ طلب گارِ راہِ ہدایت رہیں
راہ روانِ سبیل شہادت رہیں
یا الٰہی یہ غازی سُبک خیز ہوں
منزلوں کی طرف اور بھی تیز ہوں
ان کی آنکھوں میں حق کے شرارے رہیں
برق اعصا یہ سب چاند تارے رہیں
میری ملت کی تاباں قیادت رہیں
اہلِ ایماں کے سینوں کی راحت رہیں

Friday, August 26, 2011

خدا نے تم سے خرید لی ہے یہ جان تمہاری اےماہ پارو!

اے سرفروشو !اے جانبازو!
تمہی تو ملت کے پاسباں ہو
تمہارے دم سے اجالے ہر سو
تمہی عزیمت کی داستاں ہو
بڑھو تو ایسے کہ بڑھتے جاؤ
عدو کی گردن اڑاتےجاؤ
کٹو تو ایسے خدا بھی کہہ دے
تمہی حقیقت سے آشنا ہو
یہ چاند تم کو کبھی جو دیکھے
حیا سے بادل کی اوٹ لے لے
سرخ جوڑا کبھی جو پہنو
پکار ے پورے کہ عاشقاں ہو
ستارے تم کو سنائیں سرگم
پکاریں غلماں کہاں ہو ہمدم
تمہاری خاطر سجی ہے جنت
تمہی تو میرانِ کارواں ہو
صبا جو چھو لے بدن تمہارے
پھرے ہےرقصاں خوشی کے مارے
یہ عشق و مستی تمہیں مبارک
تمہی تو جنت کے وارثاں ہو
خدا نے تم سے خرید لی ہے
یہ جان تمہاری اےماہ پارو!
غریب ناصر ؔبھلا نہ دینا
تمہی تو جنت کے وارثاں ہو
آواز: ناصر شیرازی



Thursday, August 25, 2011

تلاشنا ہے اُسی وطن کو اساس تھی لا اِلٰہ جس کی

تلاشنا ہے اُسی وطن کو
اساس تھی لا اِلٰہ جس کی
حصول جس کاتھا دیں کی خاطر
تھی انتہا لا اِلٰہ جس کی

وہ جس کی خاطر ضعیف ماؤں نے
اپنے بیٹے فدا کئے تھے
تلاشتا ہوں جب اِس وطن کو
تو ایسے لگتا ہے
دیس میرا
وہ کھو چکا ہے

چہار جانب سیاہ اندھیرے ہیں
جو میری جانب بڑھ رہے ہیں
سیاہ اندھیروں میں رقص کرتے ہوئے درندے
وہ جن کی آنکھوں سے
جن کے ہاتھوں سے
خون انساں ٹپک رہا ہے
وہ میری جانب بھی بڑھ رہے ہیں
میں ان لٹیروں میں گھر چکا ہوں
جو مجھ سے میری متاعِ ایمان
چھین لینے کو مضطرب ہیں
وہ کہہ رہے ہیں مفاہمت اُن سے کر کے
ہتھیار پھینک دوں میں
وہ مجھ کو آسائشیں بھی دیں گے
وہ میری قیمت لگا رہے ہیں
سیاہ تاریک راستوں میں
وفا کے دیپک بجھا رہے ہیں

میں اپنی روشن نسیم تاریخ سے
بغاوت کا جرم کر لوں
یہ کیسے ممکن ہے تیرگی سے
معاہدہ کوئی میں بھی کر لوں
میں آخری سانس تک لڑوں گا
میں اپنے خون کا ہر ایک قطرہ
اسی وطن پر فدا کروں گا
کہ جس کی خاطر ضعیف ماؤں نے
اپنے بیٹے فدا کئے تھے


موت کی وادی میں چل اسلاف کا دیدار کر

عاشقانہ موت مرنا ہے تو چل قندھار چل
پھر اُٹھائے ہاتھ میں شمشیر جوہردار چل

ارضِ کابل کی فضائیں کر رہی ہیں تجھ کو یاد
اُٹھ بزرگوں کی صدائیں کر رہی ہیں تجھ کو یاد
موت کی وادی میں چل اسلاف کا دیدار کر

موجزن ہے اک بہارِ بے خزاں قندھار میں
گونجتی ہیں دینِ حق کی بجلیاں قندھار میں
ہورہا ہے جمع ہر سو لشکر احرار چل
آواز: ناصر شیرازی


Monday, August 22, 2011

مرنے کے لیے جینے میں جینے کا مزا ہے

جاں ہار کے دل اپنا ہی خود جیت لیا ہے
اب میں ہوں، مری قبر ہے، رنگین قبا ہے
اک روح کہ جو خلد کی ہے عیش و طرب میں
اک جسم کہ زخموں کے مزے لوٹ رہا ہے
پھر لوٹ کے جانے کی تمنا ہے زمیں پر
پھر آرزوئے رزمِ گاہِ صبر و رضا ہے
پھر شوق ہے زخموں سے میں زینت دوں بدن کو
پھر ذوقِ طلب خون سے نہانے پہ تُلا ہے
پھر قلبِ تمنا ہے شہادت کی دُھن میں
پھر جان سے جانے کی پُر اسرار صدا ہے
نظریں تو بظاہر میری حوروں پہ ہیں لیکن
دل خالی کہ حورانِ بہشت ہی پہ فدا ہے
زندوں کو ہے پیغام جو زنداں میں ہے اب تک
آزاد جو ہونا ہے تو میدان کھلا ہے
ہر سو نظر آتی ہیں سعادت کی بہاریں
ہر سمت شہادت کی ہموار فضا ہے
سو جان بھی گر تم کو عطا ہو تو سمجھ لو
سو جان لٹانے کا جو مرکز ہے خدا ہے
جو زیست پہ مرتے ہیں بتا دو انہیں اطہرؔ
مرنے کے لیے جینے میں جینے کا مزا ہے


حضرت علی کرم اللہ وجہہ

علیؓ کو بُو تراب کہتے ہیں
علیؓ کو لاجواب کہتے ہیں
علیؓ کے نام کو چومنا نبیﷺ والےثواب کہتے ہیں
علیؓ معیارِ جرأت ہے
علیؓ شیرِخدا بھی ہے
علیؓ کی ادا مریضوں کے لیے شفا بھی ہے
علیؓ دستار ولیوں کا
علیؓ پرچار نبیوں کا
علیؓ پرچم ہے اسلام کا
علیؓ قاری ہے قرآن کا
صحابہؓ کی عزت کا کبھی انکار نہ کرنا
یہ سارے ہیں نبیﷺ والے کبھی تکرار نہ کرنا

مجھے علی رضی اللہ عنہ سے پیار ہے

وہ شخص اندھیروں میں اجالوں کی طرح تھا

پتھر تھا مگر برف کے گالوں کی طرح تھا
وہ شخص اندھیروں میں اجالوں کی طرح تھا
خوابوں کی طرح تھا نہ خیالوں کی طرح تھا
وہ شخص علمِ ریاضی کے سوالوں کی طرح تھا

الجھا ہوا ایسا کہ کسی سے حل نہ ہو سکا
سلجھا ہوا ایسا کہ مثالوں کی طرح تھا

Sunday, August 21, 2011

کٹی ہے بر سرِ میداں مگر جھکی تو نہیں

ہری ہے شاخِ تمنا ابھی جلی تو نہیں
دبی ہے آگِ جگر مگر بجھی تو نہیں
جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی
کٹی ہے بر سرِ میداں مگر جھکی تو نہیں
ابھی غلط ہے نمودِ رُخِ سحر کا خیال
ابھی تو سخت اندھیرا ہے شب ڈھلی تو نہیں
ابھی کچھ اور دکھائے گی روز بادِ خزا ں
چلے گی بادِ بہاری مگر ابھی تو نہیں
چمن میں آمدِ گلچیں ہے آگ برساؤ
یہ رسم و راہِ وفا ہےسرکشی تو نہیں

شاعر:جاویدؔ

اللہ کی قسم مر کر بھی ہم زندہ رہیں گے

ہونٹوں پہ وہی عشق کا پیغام رہے گا
جو کام تھا وہ کام ہے وہ کام رہے گا
اللہ کی قسم مر کر بھی ہم زندہ رہیں گے
قاتل! ترے سر پر مگر الزام رہے گا

نہ ہم منزل سے باز آئے نہ ہم نے راستہ بدلا

زمانہ معترف ہے اک ہمارے استقامت کا
نہ ہم سے قافلہ چُھوٹا نہ ہم نے رہنما بدلا
رہِ الفت میں گو ہم پر بڑا مشکل مقام آیا
نہ ہم منزل سے باز آئے نہ ہم نے راستہ بدلا

ایمان یہاں بھی اندھے ہیں

دستور یہاں بھی اندھے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں
اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں
تقدیر کے کالے کمبل میں عظمت کے شانے لپٹے ہیں
مضمون یہاں بھی بہرے ہیں عنوان یہاں بھی اندھے ہیں

لہو کیا ہے؟؟

لہو کیا ہے؟
لہو احساس ہے، ادراک ہے اور آگہی بھی ہے
لہو آواز، بینائی، سماعت، زندگی بھی ہے
لہو لہجہ، تخیل، سوچ، جرأت، تازگی بھی ہے
لہو جب آنکھ سے ٹپکے تو دھرتی ذرد پڑ جائے
لہو جب محوِ رقصِ زیت ہو تو ارض مہکائے
صفِ اغیار کے لشکر اُلٹ دے چند لمحوں میں
لہو باہوش لوگوں کا کبھی گر جوش میں آئے
لہو نظارگیئ مہ پرستی کا آئینہ
لہو ہنسنا، لہو رونا، لہو جینا، لہو مرنا

شاعر: سلیم اخترؔ قریشی

Saturday, August 20, 2011

ظالموں پر نہ افسوس کرے کوئی

ظالموں پر نہ افسوس کوئی کرے
قاتلوں پر نہ آہیں کو ئی بھی بھرے
جن کو مٹی کا پیوند رب نے کیا
جو ہو مومن اُنہیں آج پرسہ نہ دے!
قاتلو!
ہاں تم ہی ہو نا وہ
جس نے برسوں تلک
میرے بغداد اور اُس کے اطراف میں
میری مظلوم امّت کے ایک دو نہیں
پورے دس لاکھ بچّوں کا مسلح کیا
ماؤں کی جھولیوں سے اُنہیں کھینچ کر
بھوک اور مرض کے جال میں بھینچ کر
کند چھریوں سے اُن کو ذبح کر دیا
کافرو!
پھر تم ہی ہو نا وہ
جس نے تیموروکشمیروشیشان میں
جس نے فلپین و صومال و سوڈان میں
میرے ایک ایک قاتل کو پرسہ دیا
نیل کے ساحلوں سے ملایا تلک
ردِّ اسلام کی جو بھی سازش ہوئی
سر پرستی تمہاری ہی اُس میں رہی
اور کسی نے نہیں
میری اقصیٰ کو تاراج تم نے کیا
میرے کعبہ کو گھیرے میں تم نے لیا
وہ جزیرہ عرب کا جہاں پر کبھی
اُترا کرتے تھے جبرئیل لے کر وحی
اُس کی حرمت کو پامال تم نے کیا
سرزمینِ حرم ، وہ دیارِنبیﷺ
جس سے لشکر نکلتے تھے اسلام کے
اپنے ناپاک قدموں سے روندا اُسے
اُس کے پانی پہ خشکی پہ قبضہ کیا
پوری امّت کو نرغے میں ایسے لیا
اُس کے اڈّوں سے اُڑ اُڑ کے چاروں طرف
تم نے ہی ٹام،ہاک اور ڈیزی کٹر
ہم پہ برسائے دن رات شام وسحر
ہم پہ یورانیم کی جو بارش ہوئی
تمہارے ہی دستِ ستم سے گری
یہ تم ہی تھے کہ جن کی ہوَس کی نظر
کتنی معصوم کلیوں کے دامن ہوئے
کتنے سجدہ کُناں تھے کے جن کے بدن
آن کی آن میں چیتھڑے بن گئے
یہ تمہارا ستم در ستم دیکھ کر
چیخنے تک کی نہ تھی اجازت مگر
پھر بھی چُپ سادھ کر
ہم سسکتے،بلکتے،تڑپتے رہے
ہاتھ پر ہاتھ رکھے یوں ہی بے سبب
آسمانی مدد کو ترستے رہے
خود پہ ہنستے رہے
ذلّتوں کا یہ زہرآب پیتے رہے
روز مرتے رہے روز جیتے رہے
اب مگر قاتلو!
انتہا ہو گئی
امن کی لوریاں سن چکے ہم بہت
وہ کہانی گئی
وہ فسانہ گیا
ہر بہانہ گیا
ہاتھ پر ہاتھ رکھے یوں ہی بے سبب
آسماں دیکھنے کا زمانہ گیا
’’وَأَعِدُّوْا۟ لَهُم ‘‘ کی سناء تھام کر
’’تُرْهِبُوْنَ بِہٖ‘‘ کا علم گاڑ کر
دامنِ ہند و کش میں برسوں تلک
ہم نے’’اَلْحَمْدُ ‘‘ سے لے کر ’’وَالنَّاسِ‘‘ تک
جو بھی کچھ ہے پڑھا وہ بھلایا نہیں
ہم پہ روئیں ہماری ہی مائیں سدا
ہم نے تم کو اگر خوں رُلایا نہیں
روند کر اہلِ ایمان کی بستیاں
کیسی جنت بسانے کے خوابوں میں ہو
یہ تو ممکن نہیں عیش سےتم رہو
اور ملت ہماری عذابوں میں ہو
منتظر اب رہو
ہاتھی والو!
زرا آسمانوں سے لکھے نوِشتے پڑھو
بڑھ رہے ہیں تمہارے قلعوں کی طرف
موت کے کچھ بگولے ، کچھ آتش فشاں
جُرأتوں کے دھنی ، امّتوں کے نشاں
کچھ ابابیل ، ایسے شہیدی جواں
لو تباہی کا اپنی تماشا کرو
عمر باقی ہے جو زخم دھوتے رہو
خود پہ روتے رہو!
ظالموں پر نہ افسوس کوئی کرے
قاتلوں پر نہ آہیں کو ئی بھی بھرے
جن کو مٹی کا پیوند رب نے کیا
جو ہو مومن اُنہیں آج پرسہ نہ دے!۔

صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولﷺ بس

اک دن رسول پاکؐ نے اصحاب سے کہا
دیں مال راہ حق میں جو ہوں تم میں مالدار
ارشاد سن کے فرط طرب سے عمرؓ اٹھے
اس روز ان کے پاس تھے درہم کئی ہزار
دل میں یہ کہہ رہے تھے کہ صدیقؓ سے ضرور
بڑھ کر رکھے گا آج قدم میرا راہوار
لائے غرضکہ مال رسول امیںؐ کے پاس
ایثار کی ہے دست نگر ابتدائے کار
پوچھا حضور سرور عالمؐ نے ، اے عمرؓ!
اے وہ کہ جوش حق سے ترے دل کو ہے قرار
رکھا ہے کچھ عیال کی خاطر بھی تو نے کیا؟
مسلم ہے اپنے خویش و اقارب کا حق گزار
کی عرض نصف مال ہے فرزند و زن کا حق
باقی جو ہے وہ ملت بیضا پہ ہے نثار
اتنے میں وہ رفیق نبوت بھی آگیا
جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار
لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت
ہر چیز ، جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار
بولے حضورؐ، چاہیے فکر عیال بھی
کہنے لگا وہ عشق و محبت کا راز دار
اے تجھ سے دیدۂ مہ و انجم فروغ گیر !
اے تیری ذات باعث تکوین روزگار!
پروانے کو چراغ ہے، بلبل کو پھول بس
صدیقؓ کے لیے ہے خدا کا رسولﷺ بس


’’وطنیت‘‘ ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے

یعنی وطن بحیثیت ایک سیاسی تصور کے

اس دور میں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روش لطف و ستم اور

مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے

یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیب نوی ہے
غارت گر کاشانۂ دین نبوی ہے

بازو ترا توحید کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے ، تو مصطفوی ہے

نظارۂ دیرینہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوی خاک مں اس بت کو ملا دے !

ہو قید مقامی تو نتجہ ہے تباہی
رہ بحر مں آزاد وطن صورت ماہی

ہے ترک وطن سنت محبوب الہی
دے تو بھی نبوت کی صداقت پہ گواہی

گفتار سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشاد نبوت میں وطن اور ہی کچھ ہے

اقوام جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے
تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے

خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسی سے

اقوام میں مخلوق خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے


اے ماہِ رمضان!

اے ماہِ رمضان آہستہ چل
ابھی کافی قرض چکانا ہے
’’اللہ‘‘ کو کرنا ہے راضی
اور گناہوں کو بخشوانا ہے
کچھ خواب ہیں جن کو لکھنا ہے
اور تعبیروں کو پانا ہے
کچھ لوگ ہیں اجڑے دل والے
ان دلوں میں پیار بسانا ہے
اور خزاں رسیدہ آنگن میں
خوشیوں کا دیپ جلانا ہے
کچھ توبہ کرنا باقی ہے
اور ’’رب‘‘ کو ہم نے منانا ہے
جنت کا کرنا ہے سودا
اور دوزخ سے خود کو بچانا ہے
اے ماہِ رمضان آہستہ چل
ابھی کافی قرض چکانا ہے

’’حمد باری تعالیٰ‘‘ ایک خامہ فرسائی

حمد:خدائے بزرگ و برتر کی تعریف و ثنا، ستائش۔

اگر کائنات کی وجہ تخلیق پر غور کیا جائے تو وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ رب ذولجلال نے تمام جن و انس و ملائکہ کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔ اور اس کی عبادت کیا ہے؟ اپنی عبدیت(بندگی) کا اظہار اور اللہ رب العزّت کی بڑائی، پاکی اور بزرگی کا بیان۔
اگر ہم قرآن کریم کی پہلی وحی کو اٹھا کر دیکھیں تو جو بات عیاں ہوتی ہے وہ اللہ کی حمد و ثنا ہی ہے۔

ٱقْرَأْ بِٱسْمِ رَبِّكَ ٱلَّذِىْ خَلَقَ ۔
اے نبی ﷺ اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا۔

قرآن کریم کی پہلی سورۃ کا مطالعہ کیا جائے تو وہ سراسر ہے ہی رب کی حمد وثنا۔

اے ربّ ذولجلال تو بہت کریم ہے۔ تو بہت عظیم ہے۔ تیری حمد و ثنا بیان کرنے سے ہم انسان کیا یہ کائنات پوری کی پوری عاجز ہے۔
اگر دنیا کے تمام سمندر سیاہی ہو جائیں اور تمام درخت قلم بن جائیں اور ازل سے ابد تک تیری پاکی و بزرگی لکھتے رہیں تو یہ فانی اشیاء فنا ہو جائیں۔ تیری بزرگی و برتری کا کچھ احاطہ نہ کر سکیں۔
بے شک ہم ہیچ ہیں، ہمارے الفاظ ہیچ ہیں، ہمارے خیالات ہیچ ہیں۔ تو بہت بڑا ہے، تو بہت بڑا ہے، تو بہت بڑا ہے، تو سب سے بڑا ہے۔

کہاں سے ابتدا کروں کہاں پہ انتہا کروں
کہاں سے لاؤں زباں یا رب! کیسے تری ثنا کروں

میری سوچ ہے محدود سی میرے قلم میں اتنی سکت نہیں
کہ تیری بڑائی بیان کروں اور اس بیاں سے وفا کروں

Friday, August 19, 2011

شہادت رُتبہ اَولیٰ محبت کے قرینوں میں

شہادت رُتبہ اَولیٰ محبت کے قرینوں میں
یہ بھڑکی آگ اب اِس ساری بستی کے مکینوں میں
وفا جس سے نبھاؤ گے، اُسی کے ساتھ جاؤ گے
ہیں یہ خوشخبریاں محبوبِ جاں کے ہم نشینوں میں
وہ سوزِ دل ، وہ چشمِ تر ، تڑپ دعوت کی ہر اِک تک
گِراں تحفے یہ اُمت کو دیے سارے خزینوں میں
یہاں دندانِ اَقدس ، واں مُبارک خون کے قطرے
کہ ہیں جنت کے سنگ میل اُحد کے اِن دفینوں میں
کہو طائف ، بدر ، خندق کے رستے چھوڑ بیٹھے ہو
تو جنت ڈھونڈتے پھرتے ہو بولو کِن زمینوں میں
سلگتی ہے دعاؤں سے، ہواؤں سے نہیں بجھتی
محبت کی جو چنگاری جلی شُہدا کے سینوں میں
اُحد میں حمزہؓ و مُصعبؓ کی، عبداللہؓ کی شاں دیکھو
ہیں ہیرے لعل ایسے لوگ مٹی کے دفینوں میں
جلا دے تَوبہ و اَنفال سے راتوں میں موجوں کو
دُعائے سحر سے پھر بجلیاں بھر دے سفینوں میں
میرے ایماں کے ساتھی یہ جاں یوں مت گنوا دینا
کہ تلواروں کے سائے ہیں تیری منزل کے زینوں میں
دِلوں کو اے میرے اللہ جو ذوقِ طلب بخشا
تو اب سجدے تیرے ہی نام کے ہیں ان جبینوں میں


جو ہوں فرعون ان کو میں خدا کہہ دوں یہ مشکل ہے

جو ہوں فرعون ان کو میں خدا کہہ دوں یہ مشکل ہے
جو ہوں دجال ان کو میں انبیاء کہہ دوں یہ مشکل ہے
مجھے زنجیر پہنا دو، مجھے سولی پہ لٹکا دو
مگر میں رہزنوں کو رہنما کہہ دوں یہ مشکل ہے
قبا پوشی کے پردے میں جو عیاشی کے رسیا ہیں
میں ایسوں کو شیوخ و صُوفیاء کہہ دوں یہ مشکل ہے
کھلی آنکھوں سے جو کچھ دیکھتا ہوں صاف کہتا ہوں
کسی کے ڈر سے ظلمت کو ضیاء کہہ دوں یہ مشکل ہے
جو طوفاں کی خبر سن کر لرزتے ہیں کناروں پر
میں ایسے بزدلوں کو ناخدا کہہ دوں یہ مشکل ہے
یہی اِک بوریا ہے چھین لیں درویش سے بے شک
شہنشاہوں کو ظلّ کبریا کہہ دوں یہ مشکل ہے
خدا مشکل میں خود مشکل کشا ہے اپنے بندوں کا
کسی مشکل میں اُن کو مشکل کشا کہہ دوں یہ مشکل ہے

شاعر: سید امین گیلانیؒ

جنگ لازم ہو تو۔۔۔۔۔۔

ایک خوبصورت شعرجو عملِ پیہم کی راہ دکھلاتا ہے۔ حدیث مبارکہ یا آثارِ صحابہ میں سے ہے کہ ’’جنگ کی تمنا مت کرو، لیکن اگر جنگ ناگزیر ہو جائے تو میدان سے پیٹھ مت پھیرو‘‘۔

زندہ رہنا ہے تو حالات سے ڈرنا کیسا؟
جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے

آزادی نہیں آتی

آزادی کا دن تو ہر سال آتا ہے اور 64 برس ہوئے آرہا ہے، لیکن کیا ہم آزاد ہیں؟؟؟؟
مجھ دقیانوس کو تو آزادی کے مفہوم میں ہماری حالت کہیں منطبق ہوتی نظر نہیں آتی۔۔۔۔۔آپ کیا کہتے ہیں؟؟


ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہیں زنجیریں غلامی کی
دن آجاتا ہے آزادی کا،آزادی نہیں آتی

گستاخی تیری شان میں، یہ دم ہے کس شیطان میں



لبیک محمد صلِّ علیٰ۔۔ لبیک محمد صلِّ علیٰ
گستاخی تیری شان میں ۔۔ یہ دم ہے کس شیطان میں

سب دیوانے بیدارہیں ۔۔جذبوں سے یہ سرشار ہیں
کٹ مرنے کو تیارہیں ۔۔ وہ ولولۂ ایمان میں

ہم یک دل ہیں، یک جان ہیں ۔۔ غیرت کا اِک اعلان ہیں
حُرمت پہ تیری قربان ہیں ۔۔ پکے ہیں اِس پیمان میں

ہم اپنی جانیں ہاریں گے ۔۔ اولادوں کو بھی واریں گے
ہم تیرے دشمن ماریں گے ۔۔ جو آئیں گے پہچان میں

اے دونوں عالم کے سرور ۔۔ بس تیرے ایک اشارے پر
لے کر آئے ہیں اپنا سر ۔۔ ہم بخشش کے سامان میں

شیرانِ محمد دھاڑیں گے ۔۔ ایمان کے جھنڈے گاڑیں گے
باطل کے بیج اُکھاڑیں گے ۔۔ للکاریں گے میدان میں

باطل سے ناطہ جوڑ کر ۔۔ بیٹھے ہیں قسمت پھوڑ کر
دامن کو تمہارے چھوڑ کر ۔۔ یہ ملت ہے بحران میں

اقوام یہودی، نصرانی ۔۔ کینہ ہے جن کا لاثانی
مت کرنا اِن کی دربانی ۔۔ یہ لکھا ہے قرآن میں

کردار و عمل کے بونوں نے ۔۔ باطل کے ہاتھ کھلونوں نے
اِس دور کے کچھ فرعونوں نے ۔۔ ڈالا ہے امتحان میں

ہے جنگ اندھیروں سے ۔۔ نکلے ہیں رہن بسیروں سے
اب کون الجھے گا شیروں سے ۔۔ اِ س زوروں کے گھمسان میں

افضالؔ زمانہ کیا جانے ۔۔ ہم عشقِ نبی کے مستانے
شمع پہ واری پروانے ۔۔ جیتے مرتے ہیں آن میں


Monday, August 15, 2011

تُو مجاہد، تُو فرزندِ قوم و وطن

تُو مجاہد، تُو فرزندِ قوم و وطن

تُو بہادر، تو غازی، تو شمشیر زن

تجھ کو پہچانتے ہیں زمان و زمن

اے جوانِ وطن! اے وقارِ وطن


تُو سَجیلوں کا دل، جیالوں کا راز

تُو بہاروں کا خالق ،زمیں کا سُحاب

تُو فروغِ نظر، جانِ من جانِ من

اے جوانِ وطن! اے وقارِ وطن


تُو جہاں میں اخوت کا پیغامبر

تُو رہے حُریت کا جواں رہبر

تُو ہے خورشیدِ اَمن و اَماں کی پھبن

اے جوانِ وطن! اے وقارِ وطن


سرد ہے عشقِ انساں کا آتش فشاں

گرم رہتاہے بازارِ سُود و زیاں

تجھ سے مٹ جائے گا دشمنوں کا نشاں

تُو رہے گا یونہی زندۂ و کامراں


ہم جہادِ وطن پر رہے ہیں سدا

متفق، متحد، ہم قدم، ہم نوا

بزم، تنظیم، ملت ہے جلوہ فگن

اے جوانِ وطن! اے وقارِ وطن

بلاگ کا تعارف

السلام علیکم
اردو زبان میری پیاری زبان
اردو شاعری کو پوری دنیا کی شاعری میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اور اگر شاعری با مقصد بھی ہو، یعنی پڑھنے اور سننے والے کو ایک اعلیٰ مقصد سے بھی روشناس کرائے تو کیا ہی کہنے۔۔۔۔
اردو شاعری میں مجھے اسلامی شاعری سب سے زیادہ پسند ہے اور پھر اسلامی شاعری میں حمد و نعت کے بعد جو قسم میرے دل کے تار چھیڑتی ہے وہ رزمیہ شاعری ہے۔

اس بلاگ پر اردو زبان میں موجود اسلامی شاعری (آواز اور کلام ) کا اشتراک کیا جائے گا۔ شاعری کی تمام اقسام حمد و نعت، منقبت، قصیدہ اور رزمیہ اشعار شامل ہوں گے۔انشاءاللہ