Saturday, January 14, 2012

بلاگ برائے فروخت

السلام علیکم

بلاگ پر کافی عرصہ بعد حاضری ہوئی۔ میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے بلاگ کو جاری نہیں رکھ سکتا۔ اگر کوئی اس کام میں دلچسپی رکھتا ہو تو میں یہ بلاگ(ایک عدد 4shared.com کے اکاؤنٹ کے ساتھ) اس کے حوالے کر سکتا ہوں۔
کوئی ایسا شخص ہو جسےاس کام کا تجربہ بھی ہو۔ اور شوق بھی۔
آپ مجھے ای میل کر سکتے ہیں۔


بلاگ کے بانی کا فیصلہ ختمی ہوگا۔
ہاں بلاگ کی قیمت تو بتائی ہی نہیں۔
قیمت ہے خلوصِ نیت

Tuesday, November 29, 2011

عظیم ہو تم، عظیم ہو تم! صلیب پر مسکرانے والو

عظیم ہو تم، عظیم ہو تم 
صلیب پر مسکرانے والو! 
لہو کے قطروں کے بیج بو کر 
ہزار گلشن سجانے والو! 
اجل کی وادی میں راہیوں کو
بقا کی راہیں دکھانے والو!
خدا کا پیغام دینے والو
خودی کا بادہ لنڈھانے والو!
خوشی خوشی سب سے آگے آگے
لپک کے مشہد کو جانے والو! 
تمام جھوٹی خدائیوں کے
صنم کدوں کو گرانے والو!
تمہاری یادیں بسی ہیں دل میں
افق کے اُس پار جانے والو!

Tuesday, November 15, 2011

صحابہؓ کے غلاموں کی عبادت اور ہوتی ہے

صحابہؓ کے غلاموں کی عبادت اور ہوتی ہے
یہ سجدے اور ہوتے ہیں اقامت اور ہوتی ہے
عمرؓ کے دشمنوں کو اور عمرؓ کو اس طرح سمجھو
نجاست اور ہوتی ہے طہارت اور ہوتی ہے
کہاں اصحاب کے دشمن، کہاں رسول ﷺ کے اصحاب
نحوست اور ہوتی ہے، کرامت اور ہوتی ہے
ماتمیوں کو عاشقوں سے کیوں منسوب کرتے ہو
ہلاکت اور ہوتی ہے، شہادت اور ہوتی ہے

Wednesday, November 09, 2011

افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

تقدیر امم ہو کہ تقدیر شاہی..... قصہ تمام  طاؤس و رباب اور مے سے ہی ہوتا ہے۔ فقط احوالِ محبت ہی ہیں جن کے اوّل و آخر عاشقانِ راہِ حق پر یکساں گزرتے ہیں۔ اور اگر یوں کہا جائے کہ احوالِ محبت میں آخر یا انتہا آتی ہی نہیں تو بھی غلط نہ ہوگا۔
.............................................................................................
.............................................................................................
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر 
کرتے ہیں خطاب آخر ، اٹھتے ہیں حجاب آخر 
احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا 
سوز و تب و تاب اول ، سوزو تب و تاب آخر 
میں تجھ کو بتاتا ہوں ، تقدیر امم کیا ہے 
شمشیر و سناں اول ، طاؤس و رباب آخر 
میخانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں 
لاتے ہیں سرور اول ، دیتے ہیں  شراب آخر 
کیا دبدبہ نادر ، کیا شوکت تیموری 
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق مے ناب آخر 
خلوت کی گھڑی گزری ، جلوت کی گھڑی آئی 
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر 
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا 
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
علامہ محمد اقبالؒ

Wednesday, October 26, 2011

ہر حسین حسنِ محمدﷺ سے ہے خیرات کا طالب

کوئی لمحہ بھی ترے ذکر سے خالی نہ ہوا   
میں ترے بعد کسی در کا سوالی نہ ہوا  
تو ہے یثرب کو مدینے میں بدلنے والا 
ترے جیسا کسی شہر کا والی نہ ہوا 
ہر حسین حسنِ محمدﷺ سے ہے خیرات کا طالب  
کوئی چہرہ بھی تیرے جیسا جمالی نہ ہوا  
کوئی پیدا نہ ہوا تیرے مؤذن جیسا
پھر آذانوں میں کبھی سوزِ ’’بلالیؓ‘‘ نہ ہوا
میں نے ہر دور کی تاریخ میں جھانکا لیکن
کوئی انسان میرے آقاﷺ سا مثالی نہ ہوا

Wednesday, October 12, 2011

جو ملے حیات خضر مجھے اور اسے میں صرف ثنا کروں

جو ملے حیات خضر مجھے اور اسے میں صرف ثنا کروں 
تیرا شکر پھر بھی ادا نہ ہو تیرا شکر کیسے ادا کروں 
تیرے لطف کی کوئی حد نہیں گنوں کس طرح کہ عدد نہیں 
نہیں کوئی تیرے سوا میرا کسے یاد تیرے سوا کروں 
تیرے در پہ خم رہے سر میرا تیری رحمتوں پہ گزر میرا 
میں کہا کروں تو سنا کرے تو دیا کرے میں لیا کروں  
مجھے خوشبوؤں کی کلاہ دے مجھے روشنی سی نگاہ دے
کبھی پھول بن کے مہک اٹھوں کبھی شمع بن کے جلا کروں
میں بہت ہی عاجز و بے نوا تیرے آگے میری بساط کیا
کوئی بھول ہو تو معاف کر مجھے بخش دے جو خطا کروں
میرے ایک دامنِ عمر میں ہیں نجانے کتنی ندامتیں
میرا خاتمہ بھی بخیر ہو یہی رات دن میں دعا کروں
مظفر وارثی

ہم جنگ یہ جاری رکھیں گے، کفار کو ہم للکاریں گے


یہ جنگ جو ہلال اور صلیب کے درمیان جاری ہے، ایک پرانا تسلسل ہے اور مسلمانوں کے زوال کے بعد بھی کفار اپنے پرانے زخم بھولے نہیں.....جو انہیں مسلمانوں نے عمرؓ، علیؓ، امیر معاویہؓ، خالدؓ، ابو عبیدہؓ، ضرارؓ، سعدؓ بن ابی وقاص اور زنگیؒ و ایوبیؒ کی شکل میں دیے تھے.....  بلکہ مسلمانوں کو کمزور دیکھ کر ان کی زبانیں و کمانیں اور باہر کو نکل آئیں۔ تو اب منتظر رہیں اپنے آباء کی طرح کٹنے، پٹنے اور مرنے کوکہ ایوبیؒ کے روحانی فرزندوں نے ان کے لیے تباہی کا سامان کر رکھا ہے۔
.............................................................................................
آواز: عبد الطیف الحصیری

4Shared Download Link
.............................................................................................
ہم جنگ یہ جاری رکھیں گے
کفار کو ہم للکاریں گے
ہم لے کے رہیں گے حق اپنا
دنیا کو بتا کر دم لیں گے
چن چن کے نشانہ لیں گے
شعلے بن کر آئیں گے ہم
اس ظلم و ستم کی دنیامیں
عدل و انصاف کریں گے ہم
بن جائیں گے ہم پھر ایوبیؒ
باطل پہ گرائیں گے بجلی
ہم بدلہ لیں گے اقصیٰ کا
مثلِ خالدؓ و ضرارؓ و علیؓ
ہر ظالم سے ٹکرائیں گے
ہم اپنا حق لوٹائیں گے
ہر ٹکڑائے ارضِ اسلامی
آزاد کرا کر دم لیں گے
یہ جنگ رہے گی اب جاری
یہ ضرب لگے گی اب کاری
ہر رنگ کا باطل ٹوٹے گا
دیکھی گی یہ دنیا ساری
یہ گلشن پھر چہکے گا
یہ پھول صدا پھر مہکے گا
اک دور چمن پر آئے گا
اسلام کا چہرا چمکے گا

Sunday, October 09, 2011

ہم دینِ محمدﷺ کے وفادار سپاہی، اللہ کے انصار مددگار سپاہی

حق و باطل کی صفوں کا فرق روزِ ازل سے ہی واضح ہے۔ جب ابلیس نے خدائی حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا، یا اس سے پہلے جنات کو جب زمین پر بھیجا گیا تو انہوں نے زمین پر فساد مچایا۔ اسی طرح یہ بھی روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اللہ کے سپاہیوں نے کبھی باطل کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ اور اپنے عمل کے ذریعے یہ ثابت کر دکھایا کہ فدایانِ اسلام کے سرکٹ تو سکتے ہیں، جھک نہیں سکتے۔
.............................................................................................


4Shared Download Link
.............................................................................................

.............................................................................................

ہم دینِ محمدﷺ کے وفادار سپاہی
اللہ کے انصار مددگار سپاہی
اسلام کی عظمت کے نگہدار سپاہی
باطل کی خدائی کو گوارا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
انصاف سے پھر آدمی منہ موڑ چکا ہے
سچائی سے پیمانِ وفا توڑ چکا ہے
دامانِ یقیں صبر و رضا چھوڑ چکا ہے
ہم زندہ رہ و رسم کا پیمانہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
سینےسے ہر اک نقشِ کدورت کو مٹا کر
تفریق کے بھڑکے ہوئے شعلوں کو بجھا کر
دم لیں گے ہم انسان کو انساں سے ملا کر
آباد پھر اجڑا ہواکاشانہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
خوشنودیٔ رب مقصد ہستی ہے ہمارا
قرآن ہی دستورِ اساسی ہے ہمارا
قائد بھی محمدﷺ سا مثالی ہے ہمارا
اب ہم کسی رہبر کی تمنا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
دشمن سے تیرے ہم کوئی پیماں نہ کریں گے
جینے کے لئے موت کا ساماں نہ کریں گے
رسوائیٔ ملت پہ چراغاں نہ کریں گے
ایسا نہ کریں گے کبھی ایسا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
اقرار ہمارا ہے زمانے کی نظر میں
انکار ہمارا ہے زمانے کی نظر میں
کردار ہمارا ہے زمانے کی نظر میں
ہم اپنی ہی تصویر کو رسوا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
پیغامِ سکوں راحت جاں لے کے اٹھے ہیں
اک سوز یقیں عزمِ جواں لے کے اٹھے ہیں
ہم جذبۂ تعمیرِ جہاں لے کے اٹھے ہیں
سنگینیٔ حالات کی پرواہ نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
اک موسم گل رنگِ بہاراں ہے نظر میں
اک نورِ سحر جلوۂ تاباں ہے نظر میں
تاریخ کا اک عہد درخشاں ہے نظر میں
ہم سنگ ِ درِ وقت پہ سجدہ نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
صدیقؓ کا دل، زورِ علیؓ بخش دے یا رب
فیاضیٔ عثمان غنیؓ بخش دے یا رب
فاروقؓ کی عالی نگہی بخش دے یا رب
آراستہ پھر محفلِ جانا نہ کریں گے
مرجائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
عزیز بگھرویؔ

سنا تھا ہم نے لوگوں سے محبت چیز ایسی ہے

دلیلِ محبت؟
سنا تھا ہم نے لوگوں سے
محبت چیز ایسی ہے
چھپائے چھپ نہیں سکتی!
یہ آنکھوں میں چمکتی ہے
یہ چہروں پر دمکتی ہے
یہ لہجوں میں جھلکتی ہے
دلوں تک کو گھلاتی ہے
لہو ایندھن بناتی ہے
اگر سچ ہے  .....تو پھر آخر ہمیں
اُس ذاتِ حق سے یہ بھلا کیسی محبت ہے؟
نہ آنکھوں سے چھلکتی ہے
نہ چہروں پر ٹپکتی ہے
نہ لہجوں میں سلگتی ہے
دلوں کو آزماتی ہے نہ راتوں کو رُلاتی ہے
کلیجے منہ کو لاتی ہے نہ فاقوں ہی ستاتی ہے
نہ خاک آلود کرتی اور نہ کانٹوں پر چلاتی ہے
نہ یہ مجنوں بناتی ہے
عجب! ..... ایسی محبت ہے
(فقط دعویٰ سجھاتی ہے)
نہ کعبے کی گلی میں تن پہ انگارے بجھاتی ہے
نہ غارِ ثور میں چپکے سکینت بن کے چھاتی ہے
حرا تک لے بھی جائے، قُدس سے نظریں چراتی ہے!
ہم اپنے دعویٰٔ حقِ محبت پر ہوئے نادم
تو پلکوں کے کناروں سے جھڑی سی لگ گئی اور پھر
کہیں سے بجلیاں کوندیں
صدا آئی .........
ذرا اس آنکھ کی بندش کے دم بھر منتظر رہنا
وہاں خود جان جاؤ گے
محبت کی حقیقت کو!
شاعر: احسن عزیز

Friday, October 07, 2011

کہ مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ

نہیں ہوتی ساحل کے ارمانوں سے وابستہ 
ہماری کشتیاں رہتی ہیں طوفانوں سے وابستہ 
یہ ہمارا ہی جگر ہے یہ ہمارا کلیجہ ہے 
زخم دُکھتے ہیں اور ہم اپنے نمک دانوں سے وابستہ 
اے شیخ حرم نہ لے چل ہم کو خانقاہوں کی طرف 
کہ مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ