Monday, August 22, 2011

مرنے کے لیے جینے میں جینے کا مزا ہے

جاں ہار کے دل اپنا ہی خود جیت لیا ہے
اب میں ہوں، مری قبر ہے، رنگین قبا ہے
اک روح کہ جو خلد کی ہے عیش و طرب میں
اک جسم کہ زخموں کے مزے لوٹ رہا ہے
پھر لوٹ کے جانے کی تمنا ہے زمیں پر
پھر آرزوئے رزمِ گاہِ صبر و رضا ہے
پھر شوق ہے زخموں سے میں زینت دوں بدن کو
پھر ذوقِ طلب خون سے نہانے پہ تُلا ہے
پھر قلبِ تمنا ہے شہادت کی دُھن میں
پھر جان سے جانے کی پُر اسرار صدا ہے
نظریں تو بظاہر میری حوروں پہ ہیں لیکن
دل خالی کہ حورانِ بہشت ہی پہ فدا ہے
زندوں کو ہے پیغام جو زنداں میں ہے اب تک
آزاد جو ہونا ہے تو میدان کھلا ہے
ہر سو نظر آتی ہیں سعادت کی بہاریں
ہر سمت شہادت کی ہموار فضا ہے
سو جان بھی گر تم کو عطا ہو تو سمجھ لو
سو جان لٹانے کا جو مرکز ہے خدا ہے
جو زیست پہ مرتے ہیں بتا دو انہیں اطہرؔ
مرنے کے لیے جینے میں جینے کا مزا ہے


0 تبصرے:

Post a Comment

السلام علیکم
اگر آپ کو یہ مراسلہ اچھا یا برا لگا تو اپنے قیمتی رائے کا اظہار ضرور کیجیے۔
آپ کے مفید مشوروں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔