Tuesday, August 30, 2011

اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا!

ایک "اکیلی" کے نام !!
اُس "اکیلی" کے نام .....
 جو کبھی فلسطین کے ویراں علاقوں میں ملے
کبھی عراق کے تباہ و برباد شہروں میں........
کبھی گجرات کی خون ریز سڑکوں پر........
کبھی افغانستان کے کہساروں میں ........
کبھی کشمیر کی وادیوں میں ........
جس کی چیخیں صدا بصحرا ہیں!
کبھی ابو غریب، گونتانامو اور کبھی شبر غان جیل میں ........
جو کبھی عافیہ کے روپ میں ........
کبھی فاطمہ کے روپ میں ........
کبھی بناتِ حفصہ کے روپ میں ........
کبھی مروا الشربینی کے روپ میں ........
پکارتی ہے، راہ تکتی ہے
اُس کی جو گھر میں پڑا سو رہا ہے
یا
حالِ امّت پہ صرف رو رہا ہے
جسے ابنِ قاسم بننا ہے ........
................................................................................

’’اکیلی‘‘
شاعر : بلراج کومل
اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
جانتی ہوں تمہارے لئے غیر ہوں
پھر بھی ٹھہرو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں

آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
میری امی نہیں
میرے ابا نہیں
میری آپا نہیں
میرے ننھے سے معصوم بھیا نہیں
میری عصمت کی مغرور کرنیں نہیں
وہ گھروندہ نہیں جس کے سائے تلے
لوریوں کے ترنم کو سنتی رہی
پھول چنتی رہی
گیت گاتی رہی
مسکراتی رہی
آج کچھ بھی نہیں

میری نظروں کے سہمے ہوئے آئینے
میری امی کے ، میرے ابا کے ، آپا کے
اور میرے ننھے سے معصوم بھیا کے خون سے
ہیں دہشت زدہ
آج میری نگاہوں کی ویرانیاں
چند مجروح یادوں سے آباد ہیں
آج میری امنگوں کے سوکھے کنول
میرے اشکوں کے پانی سے شاداب ہیں
آج میری تڑپتی ہوئی سسکیاں
اک سازِ شکستہ کی فریاد ہیں
اور کچھ بھی نہیں
بھوک مٹتی نہیں
تن پہ کپڑا نہیں
آس معدوم ہے

آج دنیا میں میرا کوئی بھی نہیں
اجنبی اپنے قدموں کو روکو ذرا
سنتے جاؤ یہ اشکوں بھری داستاں
ساتھ لیتے چلو یہ مجسم فغاں

میری امی بنو
میرے ابا بنو
میری آپا بنو
میرے ننھے سے معصوم بھیا بنو
میری عصمت کی مغرور کرنیں بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو
میرے کچھ تو بنو !!

بشکریہ: بلاگ .....تلاش میں ہے زندگی
کچھ ترامیم کے ساتھ

0 تبصرے:

Post a Comment

السلام علیکم
اگر آپ کو یہ مراسلہ اچھا یا برا لگا تو اپنے قیمتی رائے کا اظہار ضرور کیجیے۔
آپ کے مفید مشوروں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔